1
Monday 4 May 2020 16:43

معاشی بحران اور سورہ یوسف

معاشی بحران اور سورہ یوسف
تحریر: دانش بلتستانی مقپون

چند روز پہلے ایک تصویر نظروں سے گزری، جو کہ گندم کی پکی ہوئی سنہری فصل کی تھی۔ تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ "دیکھو، فصل پک کر تیار ہے، لیکن کرونا کے خوف سے اسے کاٹنے والا کوئی نہیں۔" یہ تصویر اور اس طرح کی صورتحال اگر مبنی بر حقیقت ہو تو انتہائی دکھ، پریشانی اور تشویش کی بات ہے، کیونکہ کرونا وائرس کی روک تھام کی خاطر باقی دنیا کی طرح ہمارا ملک بھی پچھلے ماہ سے لاک ڈاؤن اور کرفیو کی صورت حال سے دوچار ہے، عوام اور حکومت دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح نظام معیشت بالکل جام ہے اور خدانخواستہ یہ سلسلہ اگر کچھ مہینے مزید طول کھینچے تو پھر اس کا منطقی نتیجہ معاشی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔ سو اس کا تدارک کرنے کے لئے حکومت کو سنجیدگی سے معاشی منصوبہ بندی کرنی چاہیئے اور معیشت میں اس وقت انسانوں کو سب سے زیادہ گندم، چاول، دالیں اور سبزی جات کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی انسانوں کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔

اس وقت اشیائے خورد و نوش کے علاوہ باقی ساری چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں صفر یا مائنس میں آنے کی خبریں چل رہی ہیں۔ سونا چاندی، الیکٹرونک چیزیں اور گاڑیاں وغیرہ وغیرہ اب غلات اور اشیائے خورد و نوش کے مقابلے میں غیر اہم ہوگئی ہیں۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ اپنی پوری توانائی زراعت کے شعبے پر مرکوز کرے۔ اگر ابھی سے ہمارے عوام اور حکومت باہمی تعاون سے ترجیحی بنیادوں پر شعبہ زراعت پر اپنی توجہات مبذول کریں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محنت کریں تو ہم اس بحران سے نمٹ سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے صاف شفاف پالیسی بنائیں اور سنجیدہ فیصلوں کے ذریعے اس جانب توجہ دیں اور ذخیرہ اندوزوں، کرپٹ افراد اور مافیاز پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اپنی زمینوں اور کھیتوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان شاء اللہ آئندہ آنے والے ممکنہ  معاشی بحران کا عرصہ ہم سکون و اطمینان سے گزار سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمیں قرآن کریم سے بھی درس اور پیغام ملتا ہے، جس کی تفصیل سورہ یوسف میں ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک نبی خدا کسی معجزے کے بجائے بہتر منصوبہ بندی، محنت، تدابیر اور ایمانداری سے سات سالہ قحط سالی کی مشکلات سے اپنے ملک کے عوام کو  بچاتے بلکہ دیگر اقوام کی مشکل بھی حل فرماتے ہیں۔ سورہ یوسف کے تمام پیغامات اور اس میں موجود اہم الہامی نکات کو ہم سمجھیں تو ہماری اور بھی بہت سی مشکلیں دور ہو جائیں گی۔ اس سلسلے میں ہمیں اس مبارک سورہ کو اردو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور اس کی تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ لیکن آج کل کے دور میں اگر ہم آسانی کے ساتھ اس سورہ کے اسباق، اس میں موجود پیغامات اور حضرت یوسف علیہ السلام کی معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے تدابیر اور ان کی منصوبہ بندی کو سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی حیات طیبہ پر بنی ایرانی فلم "یوسف پیامبر" جس کی اردو ڈبنگ بھی ہوچکی ہے، کو دیکھیں۔ اس طرح آسانی کے ساتھ ہم اس سورہ کے درس اور پیغام کو سمجھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں یہ فلم سیریز سی ڈیز میں ملتی ہے اور کیا ہی بات ہوگی کہ اگر حکومت پاکستان اس بہترین فلم کو پی ٹی وی پر چلائے۔ ایک تو اس سے سورہ یوسف مکمل طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی، مزید یہ کہ یہ ایک دلچسپ اور پرکشش فلم ہے کہ اسے دیکھنے کے بعد کافی عرصے تک کوئی اور فلم پسند نہیں آتی۔ یہ فلم لوگوں کو گھنٹوں بخوشی گھروں میں بیٹھے رہنے پر آمادہ کرے گی۔ حکومت جو عوام کو کرونا کے پھیلاؤ سے روکنے کے لئے گھروں میں بٹھائے رکھنے کی تگ و دو کر رہی ہے، اس سلسلے میں بھی مدد ملے گی۔ اس فلم کے بارے میں سنا ہے کہ یہ فلم جب ایران میں پہلی بار ٹی وی پر چلی تھی تو سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔

لہذا یہ فلم بیک وقت کرونا کے پھیلاؤ سے بچانے کے لئے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر آمادہ کرے گی، انہیں مثبت تفریحی ماحول مہیا کرے گی، ماہ مبارک رمضان میں اس مبارک سورہ کی عملی تفسیر سے اہل ایمان کے قلوب کو منور کرے گی۔ نظام معیشت کو بحران سے بچانے کی عملی تدابیر کے طریقے سکھائے گی اور یہ سیکھنے کو ملے گا کہ کس طرح غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے لیے عوام کو آمادہ کیا جاتا ہے، کس طرح سرمایہ داروں اور سونے چاندی کے ذخیرہ اندوزوں سے سونے چاندی کو بغیر کسی ظلم و ستم کے سرکاری خزانے میں جمع کیا جاتا ہے، کس طرح صدہا سال سے نسل در نسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے، کس طرح غربت کے مارے ہوئے لوگوں کی زندگی میں فراوانی رزق و روزی کا انتظام کیا جاتا ہے۔

کس طرح مجرم  قیدیوں کو تعلیم و تربیت کے ذریعے معاشرے کا ایک بے ضرر، خیر خواہ اور باہنر شہری بنایا جا سکتا ہے۔ کس طرح بے گناہ اسیروں کی دادرسی کی جاتی ہے، اپنے مخالفین کے ساتھ کیسے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں، کیسے حسن اخلاق اور محبت کی مار سے دشمن کو دوست بناتے ہیں۔ جذباتیت اور انانیت میں آکر عجلت کے بجائے، سکون و اطمینان سے خرابیوں کی جڑیں تلاش کرکے برائیوں کی بیخ کنی کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی عظیم ترین سورہ جسے احسن القصص کہا گیا ہے، کو اطمینان و آرام کے ساتھ گھر بیٹھ کر سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یقین نہ آئے تو آزمائش کے طور پر ہی اسے دیکھ لیجیے۔ عرصے تک اسے بھلا نہ پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 860654
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش