0
Tuesday 5 May 2020 04:28

جانیں بچانے والے کو ہر کوئی مرتا دیکھتا رہا

جانیں بچانے والے کو ہر کوئی مرتا دیکھتا رہا
رپورٹ: ایس ایم عابدی

کورونا وائرس کی وباء کے باعث ملک میں جس صورتحال کا سامنا ہے، اس میں اسپتالوں کا نظام اس طرح متاثر ہوچکا ہے کہ اب عام لوگ تو درکنار انسانوں کی جان بچانے والے معالجین کیلئے بھی اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد شفاخانوں میں بستر اور وینٹی لیٹرز کا حصول مشکل تر ہوچکا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال کراچی کے ایک ڈاکٹر فرقان الحق کے ساتھ پیش آئی، جو اپنے گھر پر 10 روز سے قرنطینہ میں تھے اور جنہیں اتوار کو طبعیت بگڑنے پر شہر کے کسی اسپتال میں جائے پناہ نہ مل سکی۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں ڈاکٹر فرقان الحق کی بیوہ صائمہ فرقان نے پوری روداد سنائی کہ کس طرح دوسروں کی جانیں بچانے والے ایک معالج پر جب ان کی صحت کے حوالے سے کڑا وقت آیا تو نہ ہی انہیں کوئی اسٹریچر پر ڈالنے کیلئے تیار ہوا اور نہ ہی کوئی اسپتال انہیں اپنے ہاں جگہ اور وینٹی لیٹر فراہم کرنے پر آمادہ ہوا۔

بیوہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کو 10 روز پہلے بخار ہوا تو گھر پر ہی انہیں قرنطینہ میں رکھ دیا گیا تھا، جس کے کچھ روز بعد ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ وہ کورونا پازیٹیو ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اتوار کو جب ان کی حالت بگڑنے لگی تو مختلف اسپتالوں کی منتیں کی گئیں کہ انہیں داخل کر لیا جائے، لیکن کہیں سے انکار کر دیا گیا اور کہیں فون رکھ دیا گیا اور کہیں فون اٹینڈ ہی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر فرقان کو ایمبولینس میں سوار کرکے بھی مختلف اسپتال لے جایا گیا، لیکن اس مسیحا کو خود اپنے لئے کہیں بھی جگہ نہیں ملی۔ دو گھنٹے بعد ایمبولینس والا انہیں گھر واپس لے آیا، اس وقت تک وہ بیہوش ہوچکے تھے۔ خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر ایمبولینس ڈرائیور بھی انہیں ہاتھ لگانے کو تیار نہیں تھا، تاہم انہوں نے خود ہمت کرکے انہیں اسٹریچر پر کسی طرح لٹایا اور ایک بار پھر اسپتالوں کی خاک چھاننے نکل پڑیں، لیکن سب بے سود رہا اور کسی اسپتال نے انہیں نہ وینٹی لیٹر دیا اور نہ ہی رکھنے پر آمادہ ہوا۔

صائمہ فرقان کے مطابق اسی تگ و دو کے دوران ان کے سامنے ہی ان کا، ان کی چار بیٹیوں اور ان کی عمر رسیدہ ساس کا واحد سہارہ دم توڑ گیا۔ بیوہ جو تمام پروگرام میں روداد سناتے ہوئے مسلسل رو رہی تھیں، نے شکایت کی کہ اسپتال میں کبھی 12 گھنٹے اور کبھی 24 گھنٹے لوگوں کی خدمت کرنے والے اس ڈاکٹر پر جب کڑا وقت آیا تو کسی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ انہوں نے حکومت سے کسی بھی قسم کی کوئی اپیل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر اگر مدد ہو جاتی تو ان کے شوہر بچ جاتے، اب کسی سے اپیل کرکے انہیں کیا حاصل ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی واحد امید صرف اللہ کی ذات سے ہے، جو سب کچھ دیکھ رہا ہے، وہی ان پر، ان کی بیٹیوں اور ان کی ساس پر اپنا کرم فرمائے گا۔

دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فرقان کو وینٹی لیٹری فراہم نہ کرنے سے متعلق خبروں میں صداقت نہیں، وزیراعلیٰ سندھ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیدیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ عوام کے ساتھ شیئر کی جائے گی، کورونا مریضوں کیلئے آج بھی 283 وینٹی لیٹرز موجود ہیں، معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ مرتضیٰ وہاب نے مزید کہا کہ ڈاکٹر فرقان کے کیس میں وینٹی لیٹر کی عدم فراہمی کی بات بظاہر درست نہیں لگ رہی۔ وزارت صحت نے ڈاکٹر فرقان کی کورونا وائرس سے موت اور وینٹی لیٹرز کی عدم فراہمی سے متعلق معاملے کی تحقیقات کیلئے 3 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اسپیشل سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر فیاض احمد عباسی (سربراہ)، پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کالج ڈاکٹر امجد سراج اور ڈاکٹر سکندر میمن رکن ہوں گے۔

درایں اثناء صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فرقان الحق کو وینٹی لیٹر نہ ملنے کی تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اسپتال میں وینٹی لیٹر موجود نہیں تھا، دوسرے اسپتال منتقلی کے دوران وہ دم توڑ گئے۔ واضح رہے کہ کراچی میں کورونا کيخلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹر فرقان مہلک مرض کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔، 60 سالہ ڈاکٹر فرقان نے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خود کو گھر ميں قرنطينہ کر ليا تھا، اب تک شہر قائد ميں وائرس کا شکار 3 ڈاکٹرز انتقال کرچکے ہیں، جبکہ بیماری میں مبتلا ڈاکٹرز کی تعداد 50 ہے۔ مرحوم کے اہلخانہ نے ايک آڈيو کلپ بھی جاری کيا ہے، جس ميں گفتگو کے دوران ڈاکٹر فرقان نے ايک ايمبولينس والے سے کہا کہ انہيں انڈس اسپتال پہنچايا جائے، ليکن ايمبولينس والے نے يہ کہہ کر لے جانے سے انکار کر ديا کہ انڈس اسپتال ميں جگہ نہيں ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 860716
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش