2
Tuesday 5 May 2020 04:30

کیا سعودی عرب کا اقتصادی زوال آن پہنچا ہے؟

کیا سعودی عرب کا اقتصادی زوال آن پہنچا ہے؟
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان نے العربیہ نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب کرونا وائرس کے پھیلاو اور عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں شدید کمی کے باعث بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس اور کووڈ 19 وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں مجبوراً ایسے اقدامات انجام دینا پڑیں گے جو عوام کیلئے "دردناک" ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے انجام پانے والے اخراجات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جاری پراجیکٹس کی رفتار میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی تاریخ میں اس ملک کے وزیر خزانہ کی جانب سے ایسا بیان بے سابقہ ہے۔ محمد الجدعان جیسے وزیر سطح کے بہت کم ایسے حکومتی عہدیدار ہیں جو عوام کو اصل حقائق سے باخبر کریں۔ سعودی وزیر خزانہ نے پہلی بار اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ سعودی عرب 60 ارب ڈالر قرضہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے اور موجودہ بجٹ سے 32 ارب ڈالر بھی کم کرنے کے درپے ہے۔ یوں سعودی عرب کا بجٹ 112 ارب ڈالر پر مشتمل ہو گا۔

جب سعودی حکومت اپنے وزیر خزانہ کی زبان سے بجٹ میں کمی اور پراجیکٹس کی رفتار میں کمی کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتصاد میں جمود، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ، تنخواہوں میں کمی، سروسز کی مہنگائی اور بنیادی ضرورت کی اشیاء جیسے پانی، بجلی، صحت، تعلیم کی قیمت میں اضافہ اور ٹیکسز میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ اس وقت خلیجی ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب کو جس عظیم بحران کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ تیل سے حاصل پیداوار نصف سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے جبکہ تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات سے حاصل پیداوار بھی کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث بہت حد تک گر گئی ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کا اسٹاک ایکسچینج 6.8 فیصد تک گر گیا ہے۔ عالمی سطح پر اقتصادی لحاظ سے مختلف ممالک کی صورتحال پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے "موڈیز" نے حال ہی میں سعودی عرب کی اقتصادی صورتحال کو "پائیدار" سے کم کر کے "منفی" کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سعودی شہزادوں کے پاس ذاتی عیاشی اور تفریح کرنے اور سینکڑوں ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کیلئے کافی حد تک بجٹ نہیں ہو گا۔

موجودہ اقتصادی بحران اسلامی دنیا اور عرب دنیا میں سعودی عرب کی پوزیشن انتہائی کمزور کر دے گا۔ اب سعودی عرب انتہائی خطرناک چیلنجز سے روبرو ہے جن میں سے خطرناک ترین چیلنج سعودی حکومت کا دیوالیہ ہونا اور ایک مقروض حکومت میں تبدیل ہو جانا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو درپیش دیگر چیلنجز میں ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی، تیل کی قیمت میں مزید کمی اور اپنا سب سے بڑا اتحادی ہونے کے ناطے امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی شامل ہیں۔ سعودی عرب اب تک دو بار عالمی سطح پر تیل کی صورتحال کا درست اندازہ لگانے میں غلطی کا شکار ہوا ہے۔ سعودی حکمرانوں کی پہلی غلطی 2014ء میں انجام پائی جب انہوں نے امریکہ کی شہہ پر عالمی مارکیٹ میں تیل کی سپلائی کو حد سے زیادہ بڑھا دیا۔ ان کا مقصد تیل کی قیمت میں کمی کر کے روس اور ایران کی اقتصاد کو دھچکہ پہنچانا تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی سطح پر تیل کے ہر بیرل کی قیمت 110 ڈالر تک جا پہنچی۔ اب سعودی حکمرانوں نے دوسری بار غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے روس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس پیداوار میں اضافہ کر دیا۔ اس سعودی اقدام کا نتیجہ الٹا اس کے اپنے لئے ہی مصیبت بن چکا ہے۔

امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے ان سے تیل کی پیداوار میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر اس نے تیل کی پیداوار میں فوری طور پر کمی نہ کی تو امریکہ سعودی عرب میں تعینات اپنے فوجی اور اسلحہ اور فوجی سازوسامان واپس لوٹا لے گا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اتحاد ایک ون وے روڈ کی مانند ہے۔ یہ اتحاد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک امریکہ اس سے فائدہ مند ہوتا رہے گا اور جیسے ہی امریکہ اس بات کا احساس کرے گا کہ اب سعودی عرب اس کیلئے فائدہ مند نہیں رہا یہ اتحاد بھی متزلزل ہونے لگے گا اور نابودی کے خطرے سے روبرو ہو جائے گا۔ اب جبکہ سعودی حکمرانوں کے اپنے ہی غلط فیصلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل ایک بے ارزش چیز میں تبدیل ہو چکا ہے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اتحاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر موجودہ صورتحال مزید کچھ مدت کیلئے جاری رہتی ہے تو مغربی ایشیا خطے میں بہت بڑی اور اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی جن میں سے ایک سعودی عرب کا اقتصادی زوال ہے۔
خبر کا کوڈ : 860727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش