0
Tuesday 5 May 2020 07:44

رمضان المبارک اور دعوت الہیٰ(2)

رمضان المبارک اور دعوت الہیٰ(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

خداوند عالم کے مہمان خانہ کی بھوک اور پیاس کی کیفیت منفرد ہے، مہمانوں سے کہا جاتا ہے کہ سحر سے لیکر رات تک نہ پانی پیئں اور نہ خوراک کو کھائیں، تاکہ سورج کے غروب ہوتے ہی خداوند عالم اپنے جام الہیٰ سے انہیں سیراب کرے۔ اس دستر خوان کے مہمان جب تمام دن کھانے اور پینے کی اشیاء کی طرف نگاہ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے اور ان کے بدن میں کمزوری اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے تو یہ منظر قابل دید ہوتا ہے، کیونکہ سخت پیاس اور بھوک کے باوجود عشق خدا میں نہ پانی کو لبوں تک لاتے ہیں اور نہ غذا تناول کرتے ہیں۔ اس مہمان خانے میں دنیا کی حقیقت اور اس کی اصل شکل کا درک کیا جا سکتا ہے اور آخرت کی شیرینی اور مٹھاس کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس محفل میں بیٹھ کر انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیا سے جتنا کم تر لو گے، آخرت میں اتنا زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔

اس مہمان خانے کے مہمان ہر نماز کو آخری نماز سمجھ کر ادا کرتے ہیں اور گویا آخری بار اپنے رب سے راز و نیاز کرتے ہیں، جب بھی انہیں اس کے بعد دوبارہ خداوند عالم سے راز و نیاز کی توفیق حاصل ہوتی ہے تو پہلے سے زیادہ ذوق و شوق سے اپنے رب سے ہمکلام ہوتے ہیں اور اس طرح کا احساس کرتے ہیں، گویا پہلی بار خدا کے حضور پہنچے ہیں۔ اس مہمان خانے کے مہمانوں کی مناجات کے انداز و اطوار جدا ہیں، کبھی گریہ ہے تو کبھی خوف خدا سے طلب مغفرت، کبھی صدائے نالہ ہے تو کبھی دعا و مناجات کی دلنیشن آواز، خوف خدا بھی ہے لیکن ڈر کر اس سے دوری کا تصور بھی نہیں۔ ہمیشہ اس کی طرف جاتے ہیں اور اس سے اپنی محبت و عشق کا اظہار کرتے ہیں۔ خدا کی طرف جانے میں سبقت لیتے ہیں، لیکن یہ سفر ختم نہیں ہوتا۔ وہ اس طرح عبادت و اطاعت کرتے ہیں، گویا انہوں نے پہلے عبادت کا حق ادا نہیں کیا ہے اور اس کا ازالہ کرنے میں بے چین و بے تاب ہیں۔

بہشت و عطوفت کی بہترین خوشبو نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اس شہر کے باشندے اپنی ذات کے حوالے سے نہایت سخت، لیکن دوسروں کے ساتھ اتنے ہی مہربان ہیں۔ بعض اوقات غلطی سے اپنے آپ کو خداوند عالم کے فرستادہ فرشتوں کی طرح محسوس کرنے لگتے ہیں، یعنی سب کی خدمت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور خدا سے کوئی چیز طلب بھی نہیں کرتے۔ سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اور سب کے ساتھ برابری کو سلوک کرتے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے انتہائی سخت گیر ہیں، خود بھوک سے مر بھی رہے ہوں گے تو دوسروں کی بھوک کا پہلے مداوا کریں گے۔ اگر ان کا پیٹ بھرا ہوگا تو انہیں دوسروں سے شرمندگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ خود ضیافت الہیٰ میں مہمان ہیں، لیکن اگر کوئی مہمان آجائے تو پورے وجود کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مہمان کی مہمان نوازی میں خوشبخت سمجھتے ہیں، دوسروں کو کھانا کھلا کر زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں۔

وہ خداوند عالم کی اس آیت کے مصداق ہیں، جو اپنی غذا دوسروں کو یعنی اسیروں، فقیروں اور یتیموں کو دے دیتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ ہم نے رضا خدا کے لیے تمھیں کھانا دیا ہے اور تم سے کسی قسم کی پاداش اور صلہ و تشکر نہیں مانگتے۔ پس خداوند عالم نے رمضان المبارک کے صدقے ہمیں جتنے تحائف اور انعامات دیئے ہیں، ہمیں ماہ مبارک کی پیشانی کا بوسہ لینا چاہیئے اور اپنے تاریک وجود کو اس کے نور سے روشن کرنا چاہیئے۔ اس مہتاب کی روشنی میں آسمانوں کے راستوں کو تلاش کرنا چاہیئے، اس شہر میں باوضو ہو کر داخل ہونا اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیئے۔ خداوند عالم ہمیں رمضان المبارک کی دعوت الہیٰ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 860786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش