0
Tuesday 5 May 2020 18:23

دہشتگردی کے بعد کرونا وائرس نے پشاور میں پنجے گاڑھ لئے

دہشتگردی کے بعد کرونا وائرس نے پشاور میں پنجے گاڑھ لئے
رپورٹ: ایس علی حیدر

چین کے شہر وہان سے پھیلنے والا مہلک کرونا وائرس پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوف کی علامت بن چکا ہے، اس وائرس کے طبی نقصانات اپنی جگہ لیکن جو خوف اور ہیجانی کیفیت اسوقت طاری ہے اس کی نظیر مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ وطن عزیز میں بھی کرونا کے وار جاری ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب یہ وائرس قیمتی جانیں نہ نگلتا ہو، ہر روز سینکڑوں افراد اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ملک میں جزوی لاک ڈاؤن کو ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے لیکن یہ وائرس قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا۔ دنیا کے ترقی یافتہ مالک بھی اس وائرس کی زد میں ہیں، ٹیکنالوجی سے لیس مالک کرونا کے سامنے بے بس ہیں۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن خیبر پختونخوا آج اس عالمی وباء کے خلاف بھی نبرد آزما ہے۔ دہشت گردی نے اس صوبے خصوصاََ اس کے دارالحکومت پشاور کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اب کرونا جیسے مہلک مرض نے بھی اسی شہر کو اپنا مسکن بنالیا ہے۔ نہ جانے پشاور کو کس کی نظر لگ گئی، دہشت گردی نے صوبے کا انفراسٹر تہس نہس کیا، ہزاروں افراد کی جانیں لیں، ابھی اس شہر کو ایک پل سانس لینے کا موقع ہی ملا تھا کہ کرونا وائرس نے جکڑ لیا۔

دہشت گرد معلوم دشمن ہے لیکن کرونا وائرس ان دیکھا دشمن ہے جو ایسا وار کرتا ہے کہ اس کا فوری سد باب مکن نہیں۔ پشاور نہ صرف پورے خیبر پختونخوا، ضم شدہ قبائلی اضلاع بلکہ افغان پناہ گزینوں کیلئے بھی ماں کا درجہ رکھتا ہے۔ اس شہر نے اپنی آغوش میں ہر نئے آنے والے کو پناہ دی۔ اس شہر کی ممتا اس قدر معصوم اور سادہ ہے کہ بعض اوقات اس کی گود میں پلنے والے ہی اس کی گود اجاڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اس شہر نے دہشت گردوں کو بھی اپنی گود میں جگہ دی اور بارود سے پناہ لینے والوں کو بھی۔ آج پشاور نے کرونا وائرس کو بھی اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ پشاور میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسوں کی تعداد 1197 تک پہنچ گئی ہے۔ اس شہر کے 111 باسیوں کو مہلک وائرس نگل چکا ہے۔ ہر آنے والا دن پشاور کیلئے تلخ بنتا جا رہا ہے، روزانہ 6 سے 10 افراد موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ روزانہ سینکڑوں افراد اس مہلک مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ صوبے کے 3129 رہائشیوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں۔ مجموی طور پر 180 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، اموات کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ صوبے کی سطح پر روزانہ 10 ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کے دور میں بھی روزانہ کی سطح پر اتنی اموات نہیں دیکھی گئیں۔

صوبے میں 2138 مشتبہ کیسز اب بھی موجود ہیں۔ افغانستان اور خلیجی ممالک سمیت بین الاقوامی فلائٹس سے روزانہ سینکڑوں ہم وطن پشاور پہنچ رہے ہیں جنہیں قرنطیہ کر کے ان کے کرونا ٹیسٹ لئے جاتے ہیں۔ باہر سے آئے 3925 افراد میں سے 364 میں اس مرض کی تشخیص ہوچکی ہے۔ ان میں اموات کی شرح انتہائی کم ہے اور ابھی تک ایک موت واقع ہوئی ہے، 2600 افراد کلیئر ہوچکے ہیں جنہیں گھروں کو بھجوا دیا گیا ہے، جبکہ اب بھی 1325 افراد صوبے کے مختلف مقامات پر واقع قرنطینہ مراکز میں موجود ہیں۔ قرنطینہ مراکز میں سہولیات کا فقدان الگ سے بڑا مسئلہ ہے۔ دوران پور پشاور کے قرنطینہ سنٹر میں انہی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر سنٹر میں موجود افراد احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری پولیس اور سکیورٹی فورسز سینہ پر رہی ہیں، جبکہ کرونا وائرس کے خلاف ڈاکڑ اور طبی عملہ فرنٹ لائن پر ہے اور اس وائرس کے خلاف بھر پور جنگ لڑ رہا ہے جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بعض شدید زخمی ہوئے اور بعض عمر بھر کیلئے اپاہچ ہوگئے، ایسے ہی کرونا کے خلاف ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس خود بھی اس وائرس کا شکار بن رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے جواں سالہ معالج ڈاکٹر اسامہ کے بعد پشاور کے سینئر ڈاکٹر پروفیسر جاوید بھی اس جنگ میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹر نرسز اور پیرامیڈیکس اس مہلک مرض میں خود مبتلا ہوچکے ہیں۔ کئی ایک کی زندگیاں خطرے میں ہیں لیکن جیسے ہماری سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے قلع قمع کرنے تک ہمت نہیں ہاری بالکل اسی طرح ہمارے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور دیگر طبی عملہ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر فرنٹ لائن پر کرونا کے خلاف اسی ہمت اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں جس پر یقیناََ ہمارا طبی عملہ خراج تحسین کا مستحق ہے۔ ہمیں ان کے حوصلے بڑھانے ہونگے جیسے سکیورٹی فورسز کا مورال بلند ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہم نے اپنے طبی عملے کا مورال بھی بلند کرنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہماری سکیورٹی فورسز کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ دستیاب تھا جس کی بنیاد پر وہ دہشت گردوں سے نہ صرف لڑے بلکہ انہوں نے جنگ جیت کر بھی دکھائی، لہٰذا ہم نے اپنے طبی عملے کو کرونا کے خلاف وہ اسلحہ فراہم کرنا ہے جس کے بل بوتے پر وہ کرونا کے خلاف جنگ جیت سکیں۔

طبی عمل کا تھیار ان کیلئے حفاظتی سازوسامان کی دستیابی ہے کیونکہ جب وہ خود محفوظ ہونگے تو اس ان دیکھے دشمن سے لڑنے کی بھی بھر پور صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو فرنٹ لائن پر کا محاذ تو سپرد کر دیا گیا ہے لیکن ان کے پاس نہ تو ماسک ہیں، نہ دستانے ہیں اور نہ ہی دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے دیگر ضروری سازوسامان میسر ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتوں کو سب سے پہلے اپنے ان سپاہیوں کی حفاظت یقینی بنانا ہوگی کیونکہ جب تک ان میں احساس تحفظ موجود نہیں ہوگا اسوقت تک وہ کرونا جیسے دشمن کے ساتھ اس ہمت و حوصلے سے نہیں لڑ پائیں گے۔ محدود طبی آلات و سازوسامان کے باوجود ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کی کارکردگی یقیناََ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 860859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش