0
Tuesday 5 May 2020 21:16

شورکو امام بارگاہ کا سانحہ اور حکومتی ذمہ داری

مجرموں تک بروقت رسائی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج
شورکو امام بارگاہ کا سانحہ اور حکومتی ذمہ داری
رپورٹ: ایس این حسینی

آج 5 مئی 2020ء کو شورکو امام بارگاہ کا ہولناک حادثہ اہلیان کرم کے لئے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہے، کیونکہ پہلے ہی سے ایسے خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے۔ دیکھا جائے تو یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہو رہی ہے۔ میڈیا دیکھنے والوں کو شاید یاد ہو کہ چند ماہ قبل طالبان کے نام سے ایک پمفلٹ صدہ اور گرد و نواح میں تقسیم ہوا تھا، جس میں اہلیان پاراچنار کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ صدہ میں اپنا کاروبار نیز سودا سلف خریدنا ترک کر دیں، ورنہ انہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جگہ جگہ مقامی طوری قبائل کی اراضی پر افغان قبائل کے قبضوں، جنگلات کو نذر آتش نیز راستوں میں گاڑیوں کو نذرآتش کرنے کے واقعات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

تاہم رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں سحری کے وقت لوئر کرم میں یزیدیوں کے ہاتھوں امام بارگاہ کو بم سے اڑانے کا تازہ واقعہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جس میں امام بارگاہ کے موذن شدید زخمی حالت میں ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچائے گئے ہیں۔ افغان بارڈر پر واقع ایک حساس علاقے میں امام بارگاہ کو جس مہارت کے ساتھ ایڈوانس اور خطرناک قسم کے بارود سے اڑایا گیا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ دھماکے پر مختلف تبصرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ مقدار میں بارود کا استعمال کیا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بلڈنگ کو زمین بوس کرنے کے لئے ایک سپیشل قسم کا بارود استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم جو کچھ ہے، کم از کم یہ تو یقینی ہے کہ کام بہت ماہر اور تربیت یافتہ شخص نے انجام دیا ہے اور اس حوالے سے بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

آج صبح جیسے ہی واقعے کی اطلاع عوام کو ہوئی تو صبح سے ہی سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں عوام موقع پر پہنچ گئے۔ اس موقع پر انجمن حسینیہ کے اراکین صوبیدار ناصر حسین، دلدار حسین وغیرہ نیز تحریک حسینی کے صدر حاجی عابد حسین، سابق صدر مولانا یوسف حسین، سید باقر حسینی اور واحد حسین وغیرہ بھی موجود تھے۔ سوگواروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انجمن حسینیہ کے صوبیدار ناصر حسین نے کہا کہ امام بارگاہ کو شہید کرکے یزیدیوں نے اس منحوس کارروائی سے اپنی یزیدی فطرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم یاد رکھیں کہ اس سے طوری قوم کے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید بلند ہونگے۔

تحریک حسینی کے صدر حاجی عابد حسین جعفری کا کہنا تھا کہ شیعہ قوم کی مثال ایک سپرنگ کی مانند ہے۔ اسے جتنا دبایا جائے، چھوڑنے پر وہ اتنا ہی تیزی کے ساتھ اچھلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترحیح امام بارگاہ کی تعمیر ہے، جسے طوری اقوام مل کر اور اتفاق و اتحاد سے نئے سرے سے مضبوط اور خوبصورت بنائیں گے۔ مولانا یوسف حسین جعفری نے کہا کہ یہ کسی مسلمان کا کام نہیں، بلکہ یہ کام تو کسی انسان کا بھی نہیں، کیونکہ اسلام میں تو کسی ہندو کے مذھبی مقام کی بیحرمتی بھی جائز نہیں۔ انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے تو امام بارگاہ کی تعمیر میں وہ بھرپور کردار ادا کرکے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیں۔
 
مقررین کی تقریروں کے بعد قومی اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ کل یعنی بدھ 6 مئی کو تین بجے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کے رہنماؤں کے ہاتھوں امام بارگاہ کی از سرنو بنیاد رکھی جائے گی اور پوری شان و شوکت کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ اس موقع پر ڈی سی کرم نیز کمانڈنٹ کرم ملیشیا جمیل الرحمان صاحب بھی موجود تھے۔ سول اور عسکری انتظامیہ نے امام بارگاہ کی تعمیر میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے ایسکیلیٹر اور مکسر وغیرہ میں بھی بھرپور تعاون کی یقین دھانی کرائی۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقابل فریق کی جانب سے ہر محاذ پر تشدد پسندانہ رویئے پر مقامی انتظامیہ نے چھپ کیوں سادھ لی ہے۔

اگر یہی واقعہ برعکس ہوتا تو حکومت کا ردعمل کیا ہوتا، کیونکہ گذشتہ سال ٹوپکی میں ذاتی دشمنی کی بنیاد پر ایک واقعہ رونما ہوا۔ وہ جیسے تھا۔ اس میں پڑنا نہیں چاہتا۔ تاہم ڈی پی او نے بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔ جس میں 70 سال کا عمر رسیدہ اور بیمار شخص بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پیواڑ میں گل سکینہ کے کیس میں گھر کے بچوں اور بوڑھوں کی گرفتاری کے علاوہ عورتوں کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا۔ چنانچہ اب جبکہ عید نظر کے نام سے چلنے والے ایک آئی ڈی سے واقعے کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ انتظامیہ اور ذمہ دار ادارے مذکورہ آئی ڈی کو ٹریس کرکے مجرمین کو انجام تک پہنچانے میں کتنا عرصہ لگاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 860879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش