1
Tuesday 5 May 2020 22:34

واپسی ممکن نہیں، حال اور مستقبل پر نظر رکھیں

واپسی ممکن نہیں، حال اور مستقبل پر نظر رکھیں
تحریر: سید اسد عباس

آج انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے، اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کرونا ان کے لیے زیادہ خطرناک ہے یا بھوک اور معاشی تعطل۔ دنیا کا خیال تھا کہ چند ہفتوں کے لاک ڈاون سے کرونا کی وبا کو کنٹرول کر لیا جائے گا، کئی ممالک کو تو یہ توقع ہی نہیں تھی کہ کرونا ان کے ممالک پر یوں حملہ آور ہوگا۔ بہرحال آج کرونا دنیا میں تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب جانیں نگل چکا ہے اور اس کے شکار کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اب حکومتوں میں یہ سکت نہیں رہ گئی کہ وہ کرونا کی وجہ سے مزید کاروبار زندگی کو معطل رکھیں۔ اسی لیے ایسی دلیلیں سامنے آرہی ہیں کہ دنیا میں ہزاروں لوگ حادثات سے مرتے ہیں، کیا اس وجہ سے ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ یہی دلیل کرونا کے حوالے سے بھی سامنے آنے والی ہے کہ کیا دنیا میں ہونے والی اموات کے سبب کاروبار حیات کو معطل کر دیا جائے۔

امریکہ، اٹلی، فرانس، سپین، ایران اور چین جو کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اب لاک ڈاون میں نرمی یا خاتمے کی جانب جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے طبی ماہرین لاک ڈاون کے خاتمے کے خلاف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کھلنے کے سبب صحت کے شعبے پر پڑنے والے اثرات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم حکومت کے مدنظر صحت کے ساتھ ساتھ معیشت، روزگار، حکومتی امور جیسے بہت سے مسائل ہوتے ہیں، جن کا چلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آج حکومت پاکستان کی کابینہ کا بھی ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈاون میں نرمی کی جائے گی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب صحت کی ذمہ داری ہر انسان کو خود اٹھانی ہے۔

مجھے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ ہمیں کرونا کے خلاف جنگ مل کر لڑنی ہوگی، کوئی ایک ملک یہ جنگ تن تنہا نہیں لڑ سکتا ہے۔ کوئی بھی ملک اگر سمجھے کہ اس نے اپنے معاشرے سے کرونا کا خاتمہ کر لیا ہے اور وہ دنیا سے اس وائرس کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ کرے تو اسے سمجھنا چاہیئے کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ یہ وائرس ایک شخص سے دنیا کے لاکھوں انسانوں میں منتقل ہوا اور جب تک دنیا میں ایک بھی کرونا کیس موجود ہے، اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ وائرس پلٹے گا۔

دنیا میں اس وائرس سے جنگ کی حالت یہ ہے کہ دو بڑی معاشی طاقتیں ایک دوسرے پر کرونا کے پھیلاو کے الزامات لگا رہی ہیں۔ کرونا ویکسین کی تیاری کے لیے ہونے والی عالمی فنڈنگ کانفرنس میں مختلف ممالک کی شرکت اس جنگ میں عالمی طاقتوں کی دلچسپی کو واضح کرتی ہے۔ اس اہم کانفرنس سے امریکہ اور روس غائب تھے، جبکہ چین کا یورپی یونین سے متعلق سفیر شریک ہوا اور اس نے بھی اس ویکسین کی تیاری اور علاج پر تحقیق کے لیے براہ راست مالی مدد کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ ہر حکومت کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ہی ویکسین کی تیاری کے لیے بڑے پیمانے پر حکومتی اور نجی اداروں کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔

یورپی ممالک کا خیال ہے کہ اس وائرس کے لیے تیار ہونے والی ویکسین پر تمام ممالک کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جانا چاہیئے، کیونکہ اس وبا سے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر آبادی متاثر ہوئی ہے اور ان سب تک اس ویکسین کے نسخے پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس ویکسین پر تحقیق، تیاری اور تقسیم کے مراحل کے لیے ایک مرکزی اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ کرونا کے خلاف جنگ میں معاشی بحران اور مسائل ایک اہم عامل کے طور پر سامنے آرہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے مفاد کو محفوظ کرنے کے درپے ہے، جبکہ یہ وبا ایک مشترکہ حکمت عملی کے بغیر کنٹرول ہو جائے، ایسا ممکن نہیں ہے۔

مجھے توقع تھی کہ اس وبا کے بعد دنیا فوراً مرکزیت کی جانب بڑھے گی اور ایک مرکز سے اقدامات کرے گی، تاہم اس وقت کے معاشی مسائل کے تناظر میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہر ملک کو اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر لاحق ہے۔ اگر کرونا کی صورتحال بدستور قائم رہی تو ہر ملک کوشش کرے گا کہ اس کے ملک سے کرونا کا خاتمہ ہو اور دوسرے ممالک بالخصوص ایسے ممالک جہاں کرونا کنٹرول نہیں ہے، سے آمد و رفت کم سے کم رکھی جائے یا ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں کسی بھی شخص کے ملک میں آنے کے لیے کرونا نیگیٹو کے سرٹیفیکیٹ کو لازمی قرار دے دیا جائے۔ یہ اگرچہ تنگ نظری اور محدود سوچ کی علامت ہے، تاہم فی الحال یہی منظر نامہ ہے، جو دنیا میں سامنے آرہا ہے۔

یہ سب صورتحال ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے، جب کرونا ابھی مکمل طور پر کنٹرول نہیں ہوا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے سماجی رویوں کو بھی بہتر بنائیں۔ یہ دنیا 2019ء سے قبل کی دنیا نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں اور تیزی سے بدل رہی ہیں۔ اگر ہم اس دنیا اور اپنے معاشروں کو 2019ء سے قبل کی روش کے ساتھ چلانے کی کوشش کریں گے تو بری طرح ناکام ہوں گے۔ انسانیت کو اب پیچھے کی جانب نہیں آگے کی جانب سفر کرنا ہے۔ بحیثیت انسان اور معاشرہ ہم کو اب ویسی آزادیاں اور چھوٹ نصیب نہیں ہے، جو ہمیں 2019ء میں تھیں۔ صحت، انسانی زندگی، معیشت، بے روزگاری، غربت و افلاس اور اس سے جڑے مسائل بہت کچھ بدل دیں گے۔ حکومتوں کے سیاسی اور انتظامی چیلنجز بدل جائیں گے، انتخاب، جمہوریت کے تقاضے بدلنے والے ہیں۔ ایسے میں مذہب، رسومات اور رواجوں کو بھی حالات کے مطابق ڈھلنا ہوگا، وگرنہ یہ آفت انسانیت کے لیے بڑی آفات اور ناقابل حل مسائل کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 860905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش