0
Wednesday 6 May 2020 08:20

ماہ مبارک رمضان اور قرآنی تعلیمات(1)

ماہ مبارک رمضان اور قرآنی تعلیمات(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

رمضان المبارک میں ہر مسلمان کا قلب و ذہن رشد و ہدایت کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ انسانی افکار و نظریات کا رجحان قرآن پاک کی طرف مائل ہوتا ہے۔ روزوں کی وجہ سے جب مسلمان کا دل نرم ہوتا ہے تو اس میں قبولیت کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے، شاید اسی لیے اس مہینے میں قرآن پاک کی زیادہ تلاوت پر تاکید ملتی ہے۔ آج جب یہ تحریر مکمل کی جا رہی ہے تو ماہ مبارک رمضان اپنی تمام نعمات اور برکات سے جاری ہے۔ رمضان المبارک کی برکتیں ہی ہیں، جو ہر مسلمان اور مومن کو خداوند عالم کی عبادت کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور خدا اس مہینے میں انسان کی معمولی سے معمولی حتی نیند کو بھی عبادت کا درجہ عطا فرما دیتا ہے۔ رسول خدا نے اس مہینے کو خداوند عالم کی دعوت سے تعبیر فرمایا ہے اور اس ماہ کے زیادہ سے زیادہ احترام پر تاکید کی ہے۔ ماہ مبارک رمضان، ماہ برکت، ماہ روحانیت، ماہ شناخت اور ماہ قرآن ہے۔ اس مہینے میں خدا کی آخری کتاب قرآن حکیم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت اور اس پر غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے۔

قرآن پاک ایک مطلوبہ زندگی کا دستور العمل ہے اور قرآن کی تعلیمات پر عمل انسان کے لیے اس دنیا اور اس دنیا دونوں میں کامیابی اور کامرانی کا باعث ہیں۔ ماہ مبارک رمضان میں قرآن پڑھنے اور اس پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ رمضان المبارک بہار قرآن ہے، اس مقدس مہینے میں قرآن کی جتنی تلاوت کی جائے کم ہے۔ قرآن پاک کی آیات میں انسان کو سمجھانے اور راہ حق کی طرف دعوت دینے کے لیے بشارت اور تنبہ و خبردار کرنے کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن بشیر بھی اور نذیر بھی ہے۔ بشارت سے مراد، حوصلہ افزائی کرنا، روشنی و امید دلانا، شوق و رغبت پیدا کرنا، نیکی اور رحمت الہیٰ کی طرف متوجہ کرنا اور نذیر، تنبہہ اور خبردار کرنے سے سے مراد روکنا، خوف دلانا، خطرہ کا الارم بجانا اور برے کاموں اور گناہوں سے بچانے کے لیے احساس ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا۔

خداون عالم نے انسان کو راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث کیے ہیں۔ تمام انبیاء بھی قرآن پاک کی طرح بشیر و نذیر تھے۔ انبیاء و اولیاء نے بنی نوع انسان کے سامنے دونوں چیزیں رکھ دیں، اب انسان کی مرضی ہے کہ وہ بشارت اور خوف یعنی خوشخبری اور بدخبری میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر79 میں ارشاد ہوتا ہے۔ "اے پیغمبر ہم نے آپ کو حق کی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے اہل جہنم کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا جائے گا۔" انسانی فطرت میں شامل ہے کہ حوصلہ افزائی اور دھمکی دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ فائدے کے حصول اور نقصان سے بچنے کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ ہر عاقل شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے عوامل سے محفوظ رہے، جو اس کو نقصان میں مبتلا کرسکتے ہیں اور ایسے امور کی طرف تیزی سے لپکے، جو اس کے فائدے اور نفع میں ہیں۔ انسان کے اندر گویا ایک جاذبے اور دافعے یعنی جذب کرنے اور دور کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ فائدہ کو جذب کرتا ہے اور نقصان اور خسارہ کو اپنے سے دور کرتا ہے، چاہے یہ فائدہ اور نقصان انفرادی ہو یا اجتماعی، معنوی ہو یا مادی۔

انبیاء و اولیاء انسان کے اندر دو قوتوں یعنی جازبہ اور دافعہ کو صحیح سمت دینے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ انبیاء انسان کی تربیت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان دو قوتوں کو صحیح استعمال کرسکے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے طریقہ تربیت اور روش تربیت کو سب سے اعلیٰ اور بہتر روش تربیت قرار دیا جاتا ہے۔ تربیت کے ہر دور کے ماہرین نے اس بات کی تائید کی ہے کہ اچھی تربیت کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ اچھے کام کی حوصلہ افزائی کی جائے اور برے کام سے خبردار کیا جائے۔ اس عمل کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ انسان اس کام کو زیادہ شوق اور ولولے سے انجام دیتا ہے، جس میں حوصلہ افزائی، تشویق اور بشارت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ قرآن پاک نے انسان کے لیے اپنی آیات مِں بہت سی بشارتوں اور خوشخبریوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ خوش خبریاں قرآن کی توجہ اور معرفت سے تلاوت کرنے والوں کے لیے باعث امید اور باعث نوید بنتی ہیں۔ ان آیات کی تلاوت کے بعد انسان میں امید کی کرن پیدا ہوتی ہے، اسے روشن اور شیرین مستقبل نظر آتا ہے، اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور دل کو آئندہ کے بارے میں ایک خاص قسم کا سکون میسر آتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بشارتیں، وعدے اور امیدیں کسی انسان کی طرف سے نہیں ہیں، انسان کو جب اس بات کا یقین کامل ہو جاتا ہے کہ یہ بشارتیں، امیدیں اور توقعات اس خداوند عالم کی طرف سے ہیں، جو ہر چیز پر قادر ہے اور جس کے قبضے میں ہر چیز ہے اور وہ جھوٹے وعدے بھی نہیں کرتا تو وہ ان بشارتوں پر ایمان لے آتا ہے اور ان تک پہنچنے کے لیے عبودیت خدا کے راستے کو اپنا لیتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآنی بشارتوں پر اسی صورت میں اطمینان حاصل ہوسکتا ہے، جب اس قرآن کو اتارنے والے پر گہرا، مستحکم اور غیز متزلزل ایمان ہو۔ قرآنی آیات میں قرآن پر حسن ظن رکھنے پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ حسن ظن سے مراد وہ خوش بینی، امید اور مثبت فکر ہے، جو خداوند عالم کے بارے میں ایک مومن میں ہونی چاہیئے۔ حسن ظن یعنی ہمیشہ مثبت سوچ، حسن ظن یعنی منفی افکار کو قریب بھٹکنے نہ دینا، حسن ظن یعنی ہمیشہ خداوند عالم کی ذات سے امیدوار رہنا اور اس کے کیے گئے وعدوں کو حقیقی اور عملی سمجھنا۔ جب انسان کا خدا کے بارے میں یہ ایمان ہو کہ وہ قادر مطلق ہے، خیر محض اور اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے اور کسی زمان و مکان میں بھی قید نہیں تو اس کا دل خداوند عالم کی دی ہوئی ہر بشارت، خوشخبری اور وعدے پر مکمل ایمان لے آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 861017
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش