1
Thursday 7 May 2020 09:33

قرآن سے ہمارا رشتہ

قرآن سے ہمارا رشتہ
تحریر: ذاکر حسین میر

پروفیسر بروس لارنس، ڈیوک یونیورسٹی میں اسلامک اسٹدیز کے پروفیسر ہیں۔ انہیں اسلامی علوم؛ قرآنیات، تاریخ، تفسیر، ایشین اسڈیز اور ادیان کا تقابلی مطالعہ وغیرہ پر کافی دسترس حاصل ہے۔ قرآن اور تفسیر میں کئی کتابوں اور مقالوں کے خالق ہیں۔ ”قرآن کا انگریزی ترجمہ“، ”قدیم مذاہب اور آج کی سیاست“  اور ”قرآن کا مطالعہ“ وغیرہ ان کی معروف تالیفات ہیں۔ خود انہی کے بقول قرآنی علوم میں ان کے بہت سارے مسلمان اور غیر مسلمان شاگرد ہیں۔ عرب ممالک سے بہت سارے ایسے  مسلمان طالب علم آتے ہیں، جو قرآن کے حافظ ہوتے ہیں۔ انہیں جہاں کہیں سے پوچھا جائے طوطے کی طرح سناتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں ان کے حافظہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لئے کہ قرآن کو حفظ کرنا کوئی آسان کام نہیں، لیکن جب میں ان سے انٹرویو لیتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کے سادہ ترین مفاہیم سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ میں تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ان سے پوچھتا ہوں کہ کیسے مشکل کام کو تو انجام دے لیا، لیکن آسان کام کو چھوڑ دیا؟ تو ان کے پاس میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ جی ہاں! یہی وہ بنیادی مشکل ہے، جس سے آج کا مسلمان دوچار ہے۔

ہم قرآن کو حفظ بھی کرتے ہیں، بچپن ہی سے کسی مولانا کے پاس جا کر پڑھ بھی لیتے ہیں، ہمارے پاس بڑے بڑے قاری بھی ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر معروف ہیں۔ ہماری محفلوں کی ابتداء قرآنی آیات سے ہی ہوتی ہے، تمام مسلمان ملکوں کے قومی چینلز پر دن میں ایک آدھ گھنٹہ قرآن کی تلاوت ضرور ہوتی ہے۔ ہم ثواب کی نیت سے کم از کم مہینہ میں ایک مرتبہ ختم قرآن کرتے ہیں، ہم اپنے مردوں کے ایصال ثواب کے لئے چند مرتبہ ختم قرآن کرتے ہیں، ہمارے ہاں کوئی ایسا گھر نہیں، جہاں قرآن موجود نہ ہو اور ہم میں سے ہر کوئی یہ فخر محسوس کرتا ہے کہ ہمارا رشتہ قرآن سے ہے۔ امریکن پروفیسر کے بقول ہم مشکل کام تو کر لیتے ہیں، لیکن بنیادی کام نہیں کرتے! قرآن حفظ کرتے ہیں، تاکہ رمضان کے مبارک مہینہ میں تراویح پڑھائی جاسکے۔ قاری بن جاتے ہیں، تاکہ بڑی بڑی محفلوں کو لوٹ لیں۔

مہنگا ترین قرآن خرید کر گھر میں رکھتے ہیں، تاکہ ہمارے لئے باعث خیر و برکت ہو، ہر مہینے کم از کم ایک ختم قرآن ضرور کرتے ہیں، تاکہ ڈھیر سارا ثواب حاصل ہو اور مردوں کے ایصال ثواب کے لئے قرآن کی محفلیں سجاتے ہیں، تاکہ ان کے نامہ اعمال میں نیکیاں زیادہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ کاموں میں سے ہر ایک باعث اجر و ثواب ہے، لیکن ہم ایک بات کو آج تک نہ سمجھ سکے کہ یہ سارا اہتمام  قرآن کو سمجھنے کے لئے مقدمہ ہے۔ قرآن کو حفظ کرنے کی تاکید اس لئے ہے کہ ہم قرآن سے مانوس ہوں، قرآن کو پڑھنے پر زور اس لئے دیا گیا ہے، تاکہ ہم اس سے زیادہ آشنا ہوں، یہاں تک کہ قرآن کو چومنے، اسے کھول کر دیکھنے اور اس کی آیات کو چھونے کے لئے بھی ثواب رکھا گیا ہے، تاکہ ہمارے اور قرآن کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیڑھی تو چڑھ بیٹھے، لیکن چھت پر جانا بھول گئے۔

صاحب تفسیر "المیزان" علامہ محمد حسین طباطبائی فرماتے ہیں: عالم ہستی پر حاکم نظام، انسان کی خلقت، زمین کے طول و عرض میں سیر و سیاحت، گذشتہ اقوام و ملل کے حالات کا مطالعہ اور ان کے آثار پر تحقیق وغیرہ کی طرف قرآن کی دعوت، حقیقت میں اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ان تمام علوم کو حاصل کرنے کی دعوت دے رہا ہے، جو انسان کی دسترس میں ہیں۔ قرآن کے ساتھ ہمارا رشتہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی ہم اس سے مانوس ہوں گے اور جس قدر ہم قرآن سے مانوس ہوں گے، اسی قدر ہم قرآن کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان تمام علوم کو حاصل کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لیں گے، جو انسان کی دسترس میں ہیں۔ قرآن علم، حکمت اور زندگی ہے۔ یہ قرآنی معارف ہی ہیں، جو دنیا کی ظلمتوں میں کھوئی ہوئی انسانیت کو راستہ دکھا سکتے ہیں۔ اگر انسان عدالت کا متلاشی ہے اور ظلم و جور سے تنگ آچکا ہے تو اس سے مقابلہ کا راستہ صرف قرآن سے ملے گا۔ اگر انسان علم و معرفت کی تلاش میں ہے، تاکہ اس کے لئے آرام و سکون کے وسائل فراہم ہوں تو راستہ قرآن سے ملنے والا ہے اور اگر انسان کی نگاہیں خداوند متعال پر ہوں تو اس تک پہنچنے کا تنہا راستہ قرآن ہے۔

آج کا مسلمان جس پستی، ذلت، اخلاقی رذائل، جہالت اور بدبختی کا شکار ہے، اس کا بنیادی سبب قرآن سے دوری ہے۔ ہم نے علم، معرفت اور سعادت کے اس عظیم منبع کو بیگانوں کے سپرد کرکے خود چند رسومات لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ نے مستشرقین (orientalists) کا نام تو ضرور سنا ہوگا۔ یہ وہ غیر مسلم دانشمند ہیں، جو اسلامی اور قرآنی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں اور غیر مسلم دنیا میں اسلامک اور قرآنک اسڈیز کے شعبوں میں تدریس، تحقیق اور تصنیف و تالیف وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ قرآنی علوم سے متعلق بہت ساری کتابیں منظر عام پر لاچکے ہیں اور کئی ایک تحقیقی اور علمی مجلات پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے "جرنل آف قرآنک اسڈیز"، آکسفورڈ یونیورسٹی سے "قرآنک اسڈیز سیریز" اور ایڈنبرگ یونیورسٹی سے "جرنل آف قرآنک اسڈیز" چند ایک معروف مجلات ہیں، جن میں نت نئے موضوعات پر علمی اور تحقیقی مقالات چھپتے ہیں۔ اسی طرح ایزتسو، گوستاووایل‌، رژی بلاشر، جان بی ناس، گلدزیهر اور موریس بوکای وغیرہ وہ چند اہم نام ہیں، جنہوں نے قرآن کے موضوع پر اہم تالیفات کیں، جو غیر مسلم دنیا میں قرآنی علوم کے لئے منبع کی حیثیت رکھتیں ہیں۔

جو کام اسلامی ملکوں میں موجود ہزاروں درسگاہوں میں ہونا چاہیئے تھا، وہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں مشکل سے کوئی ایسی یونیورسٹی مل جائے گی، جہاں قرآنک ڈیپارٹمنٹ ہو اور جہاں پر ہے، وہاں بھی یونیورسٹی کا سب سے مظلوم ڈیپارٹمنٹ یہی ہوگا۔ ہمارے ہاں کوئی نئی یونیورسٹی کھلتی ہے تو سب سے پہلے کھلنے والے ڈیپارٹمنٹس میں سے ایک  انگلش لٹریچر  کا ہوتا ہے اور لوگ انگلش لٹریچر پڑھنے اور پڑھانے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں، جبکہ انگلش لٹریچر میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، وہی تمام مباحث قرآن میں بھی ہیں۔ دور حاضر میں تمام فلسفی مباحث کا محور زبان ہے۔ زبان کی تاریخ، زبان اور کلچر، زبان اور متون مقدس، زبان اور اس کا اسٹرکچر اور متون کی تفسیر میں زبان کا کردار وغیرہ ایسی مباحث ہیں، جنہیں جدید فلسفہ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وہ مباحث ہیں، جن سے ایک لٹریچر کے طالبعلم کو واسطہ پڑتا ہے۔

ایک ٹیکسٹ (Text) ہونے کی حیثیت سے یہی ساری مباحث قرآن میں بھی ہیں۔ اسی لئے قرآن کی جدید تفسیر میں مذکورہ تمام مباحث اضافہ ہوئی ہیں؛ جن میں قرآن اور زبان، قرآن اور کلچر، ہرمنوتیک، قرآنک اسٹرکچر اور قرآن اور تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ تو کیوں نہ ہم انہی مباحث کو قرآن میں پڑھ لیں اور ان معارف سے آگاہ ہوں، جو ہمارے لئے ضابطہ حیات ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم شکسپئر کے ڈراموں کو پڑھنا، فرانسس  بیکن کے مضامین پر تحقیق کرنا اور جیفری چوسر کی شاعری کو سمجھنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں، جبکہ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر تحقیق کرنا ہمارے لئے باعث ننگ و عار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری تمام یونیورسٹیوں میں قرآنک ڈیپارٹمنٹ ہوں اور نہ صرف ہوں بلکہ سب سے زیادہ ایکٹیو بھی ہوں، لیکن ہم نے اس ضرورت کا احساس ہی نہیں کیا۔ ہمارے ہاں  قرآنیات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے کو وہ سکوپ نہیں ملتا، جو ایک عام لٹریچر پڑھنے والے کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طالب علم انگلش، اردو ، فارسی اور عربی لٹریچر کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن قرآنی علوم کی طرف ان کا رجحان سرے سے نہیں ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں قرآن اور اس کے معارف زندہ ہوں تو ضروری ہے کہ ہم اپنی درسگاہوں میں قرآنی علوم کو اہمیت دیں، ان کا تعارف کرائیں، قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور نئی نسلوں کو ان معارف کی طرف جانے کی ترغیب دیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت جلد ملک کی تمام یورنیورسٹیوں میں قرآنک ڈیپارٹمنٹ کھل جائیں گے اور سب سے زیادہ ایکٹیو بھی یہی ہوں گے۔ لیکن  یہ صرف ایک خواب ہے، جو شاید خواب ہی رہے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر علی شریعتی کا ایک شکوہ معروف ہے: قرآن! میں شرمندہ ہوں، اس لئے کہ میں نے تجھے اعلان مرگ کا ذریعہ بنایا، جب بھی کسی گلی سے تیری آواز آتی ہے، سب پوچھتے ہیں: کون مرا ہے۔؟ کسی باذوق نے تجھے چاول کی تھیلی پر لکھا ہے تو کسی نے تجھے (ڈیکوریشن کے لئے) قالین پر لکھا ہے، کوئی تجھے سونے سے لکھتا ہے تو کوئی تجھے مائیکرو سائزز میں تقسیم کر رہا ہے۔۔۔۔۔ کیا واقعی خدا نے تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ ہم تیرا میوزیم بنائیں۔؟
خبر کا کوڈ : 861257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش