2
Friday 8 May 2020 02:28

امریکہ کیلئے عنقریب عراق میں شکست کا ایک اور تجربہ

امریکہ کیلئے عنقریب عراق میں شکست کا ایک اور تجربہ
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

عراق کے حالیہ سکیورٹی حالات اس صورتحال کا نتیجہ ہیں، جو 2014ء سے 2017ء تک امریکہ کی استعماری پالیسیوں اور اس کے کرائے کے گروہوں نے مل کر ایجاد کی تھی۔ واشنگٹن پرامید تھا کہ وہ عراق کو مغربی ایشیاء میں اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور اہداف کے حصول کیلئے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ لہذا جب بھی امریکہ ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا ہے، اس نے دوبارہ آگے بڑھ کر اپنی سابقہ پوزیشن محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ امریکی حکام نے 2003ء میں طویل قبضے کی نیت سے عراق پر فوجی یلغار کی تھی اور اس وقت کی عراقی حکومت کی جانب سے امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کے مقابلے میں اسٹریٹجک غلطیوں کے ارتکاب کے باعث بیس دن کی نفسیاتی جنگ اور طاقت کی نمائش کے بعد اس ملک پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جنرل جے گارنر نے عراق پر مستقل قبضے کی بنیاد پر منصوبہ بندی انجام دی اور ہر ایسے عمل کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا، جس سے تھوڑی سی بھی عراقیت کی بو محسوس ہوتی تھی۔ اسے یہ سمجھنے میں کچھ مہینے لگ گئے کہ اسلامی تاریخ اور بنیادوں کے حامل ملک پر قبضہ آسان کام نہیں اور امریکی افواج عراقیوں کی تیز نگاہوں کے سامنے زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ سکتیں۔ لہذا اس نے کئی ماہ بعد انتہائی ناقص انداز میں ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی، تاکہ یہ ظاہر کرسکے کہ وہ جو کچھ بھی عراق میں انجام دے رہا ہے، عراق کی بڑی سیاسی شخصیات کے مشورے سے ہے۔

لیکن عراق کے سیاسی رہنماوں نے عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کونسل میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور گارنر کو "حکم پارلیمنٹ" نامی حکومتی کونسل تشکیل دینے پر مجبور کر دیا۔ امریکی حکمرانوں کا خیال تھا کہ حکم پارلیمنٹ تشکیل پانے کے بعد مغربی فوجیوں پر دباو میں کمی واقع ہوگی اور ان کی عراق میں طویل المیعاد موجودگی کا مقدمہ فراہم ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ مشاورتی کونسل کو مسترد کئے جانے اور گارنر کو حکم پارلیمنٹ کی تشکیل پر مجبور کئے جانے کے بدلے عراق کے سیاسی رہنماوں نے امریکہ سے کوئی معاہدہ طے نہیں کیا تھا اور انہیں اس بارے میں یقین دہانی نہیں کروائی تھی کہ وہ اس کے بعد امریکی اور مغربی فوجیوں پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات انجام دیں گے۔

امریکی فوجیوں کو درپیش خطرات میں شدت اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ عراق میں امریکہ کے چیف کمانڈر کی جانب سے وائٹ ہاوس سے اس مطالبے کا باعث بنا کہ عراق میں فوجیوں کی تعداد میں قابل توجہ کمی کی جائے۔ یوں آخرکار جارج بش نے عراق میں امریکی فوجیوں کی بتدریج کمی کا منصوبہ قبول کر لیا اور اس بنیاد پر 2007ء میں امریکہ اور عراق کے درمیان سکیورٹی معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے پر امریکی صدر جارج بش اور عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے دستخط کئے۔ معاہدے کے دو سال بعد عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہوگیا، جو دسمبر 2011ء کے آخر تک جاری رہا۔ یوں عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد تین لاکھ سے کم ہو کر ایک سے دو ہزار کے درمیان رہ گئی۔ لہذا واضح ہے کہ یہ سکیورٹی معاہدہ امریکہ کی مرضی کے خلاف انجام پایا اور وہ اس پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔

2)۔ 2011ء میں عراق سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد اس ملک میں کچھ حد تک استحکام آگیا اور مقامی سیاسی سیٹ اپ میں جان آنے لگی۔ ایسے حالات میں امریکی حکام اپنے ملک کے سیاسی حلقوں اور اپنے اتحادی ممالک کی جانب سے مسلسل اس سوال سے روبرو تھے کہ عراق پر فوجی حملے اور ہزاروں امریکی فوجیوں کی جان ضائع ہونے کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے؟ دوسری طرف عراق سے فوجی انخلاء امریکہ کیلئے ایک بڑی اسٹریٹجک شکست بھی تھی اور چونکہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی تھی، لہذا امریکی فوج شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہوچکی تھی۔ یوں عراق کی صورتحال ان کیلئے ایک دوغلی حالت میں تبدیل ہوگئی۔ ایک حالت یہ تھی کہ عراق کو کنٹرول کرنا امریکہ کیلئے ناممکن تھا، جبکہ دوسری حالت یہ تھی کہ عراق کی اسٹریٹجک پوزیشن واشنگٹن کو اس بات پر مجبور کر رہی تھی کہ کیوں نہ ایک حد تک رسک لینا پڑے اور عراق میں براہ راست موجودگی یقینی بنائے۔ امریکہ نے دوسرے آپشن پر نظریں جما رکھی تھیں۔

اس دوران اوباما حکومت وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی مرکزیت میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ایک کٹھ پتلی عراقی گروہ موجودہ صورتحال کو واپس پلٹانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکی حکام نے آخرکار ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں تکفیری دہشت گرد گروہ کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسے عراق میں اپنے فوجیوں کی موجودگی جاری رکھنے کا اچھا بہانہ قرار دیا۔ گذشتہ چند برس کے دوران موجودہ اور سابق امریکی حکومتی عہدیداروں کے سامنے آنے والے بیانات اور دیگر دستاویزات نیز الیکشن کمپین کے دوران مناظرات میں سامنے آنے والے مطالب کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکام نے مناسب افراد کی شناسائی کا کام شروع کر دیا۔ ان کی توجہ کا مرکز عراق کی مختلف جیلوں میں قید وہ قیدی تھے، جو مختلف قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کے جرم میں قید تھے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق ابو مصعب الزرقاوی کے گروہ "التوحید و الجہاد" سے تھا۔ ان افراد کو امریکہ نے اپنی زیر سرپرستی اردن میں فوجی ٹریننگ دی اور عراق واپس لوٹا دیا۔ ان کا نعرہ اسلامی حکومت کا قیام تھا، تاکہ امریکہ پر ان کا انحصار پوشیدہ رکھا جا سکے۔

بعض افراد کی جانب سے بیان کردہ وضاحتوں کے برعکس اسلامی حکومت کا قیام ایسا کاز اور ماٹو نہ تھا، جس کیلئے اہلسنت علماء دین اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کے دعویدار اس گروہ نے عوام کے قتل عام کا راستہ اختیار کیا، جبکہ تمام اسلامی مسالک سے وابستہ علماء متفقہ طور پر عام افراد کے قتل عام کو حرام قرار دے کر اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ گروہ تقریباً دو سال کے اندر اندر ایک طاقتور اور جدید ہتھیاروں سے لیس تنظیم کے طور پر سامنے آیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انہیں "بیرونی مدد اور حمایت" حاصل نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسی طاقتور تنظیم کے طور ظاہر ہو کر عراق کے تقریباً 60 فیصد حصے پر قابض نہیں ہوسکتے تھے۔ اس گروہ نے 2012ء میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور 2014ء میں عراق کے وسیع صوبوں الانبار، نینوا، صلاح الدین اور دیالی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اسی طرح دو دیگر صوبوں بابل اور کرکوک کے وسیع حصے پر بھی قابض ہوگیا۔ یہ تمام علاقے مل کر عراق کا تقریباً 60 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں۔

جب 10 جون 2014ء کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے بھرپور جارحیت کا آغاز کیا اور اہلسنت اور شیعہ عوام میں شدید رعب کی فضا قائم کر دی تو امریکہ نے اسے ایسا انصاف پسند گروہ قرار دیا جو "قبائلی طرز کی حکومت" کے ظلم و ستم سے تنگ آکر میدان میں آچکا ہے اور اس کی کامیابی کو یقینی قرار دیا۔ امریکی حکمرانوں کا یہ موقف کئی ماہ تک جاری رہا۔ لیکن جب ستمبر 2014ء میں واضح ہوگیا کہ اس گروہ کو کوئی بڑی کامیابی نصیب نہیں ہونے والی تو امریکی حکام نے محتاطانہ رویہ اختیار کر لیا، لیکن اس کے باوجود داعش کے خلاف برسرپیکار قوتوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے حقیقت میں اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی مدد اور حمایت جاری رکھی۔ اس گروہ کی حتمی شکست کے بعد امریکی حکام نے عراق میں فوجی واپسی کی باتیں شروع کر دیں، لیکن انہیں عراقی حکومت اور عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور حتی حالیہ چند ماہ کے دوران امریکی فوجیوں اور عراقی سکیورٹی فورسز کے درمیان متعدد مسلح جھڑپیں بھی انجام پا چکی ہیں۔

3)۔ عراقیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں امریکی انتہائی مشکل صورتحال سے روبرو ہوگئے۔ 5 جنوری 2020ء کے دن عراقی پارلیمنٹ میں امریکہ کے فوجی انخلاء سے متعلق بل کی منظوری ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے۔ متکبر امریکی حکام کیلئے ایک ایسے ملک کے 169 اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بل پر دستخط کرنا، جسے وہ دیوالیہ اور انتشار کا شکار سمجھتے ہیں، ان کیلئے تاریخی حقارت تصور کی جا رہی ہے۔ یوں امریکی حکام خود کو شدید مخمصہ آمیز صورتحال سے روبرو پا رہے ہیں۔ ایک طرف "موثر موجودگی" پر مبنی پالیسی اور دوسری طرف ان کے مداخلت آمیز اقدامات کی بدولت عراقیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی نفرت نے انہیں شدید پیچیدہ صورتحال کا شکار کر ڈالا ہے۔ لہذا امریکہ نے اس بار بھی "دہشت گردی کے سائے" کو بروئے کار لانے کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو دوبارہ میدان میں لانے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے امریکی وزیر دفاع مائیک ایسپر نے شام کے شمال مشرق سے ہزاروں فوجیوں کی عراق منتقلی کی خبر دی تھی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ امریکہ کے اس اقدام کا مقصد عراق کو اپنا دفاع کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے شام کے شہر المالکیہ کی جیل سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے 230 دہشت گردوں کو آزاد کر دیا ہے۔ حال ہی میں عراق میں داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے عراق کی مسلح افواج پر حملہ کرکے 44 فوجیوں کو شہید کر دیا ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت انجام پایا ہے، جب عراق کی مسلح افواج نے تابڑ توڑ حملوں کے ذریعے داعش کی کمر توڑ دی تھی۔ دسمبر 2017ء میں اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی نابودی کا اعلان کر دیا گیا تھا اور یوں داعش کی دوبارہ سرگرمیوں کا امکان ختم ہوچکا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ داعش کی ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 10 جون کے دن عراق سے نیا سکیورٹی معاہدہ کریں گے۔ یاد رہے یہ تاریخ 2014ء میں داعش کے ہاتھوں موصل پر قبضے کا دن ہے۔ امریکہ کے اس اعلان نے عراق کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکہ سے سکیورٹی معاہدے کا تسلسل یا بدامنی اور جھڑپوں کی نئی لہر کا آغاز۔ امریکہ نے اس بار بھی اپنی خام خیالی کی بنیاد پر عراق کے بارے میں نئی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس کا یہ تصور باطل ہے کہ عراق امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور دہشت گردی کے نئے فتنے سے روبرو ہونے میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہے، کیونکہ یہ عراق وہی ملک ہے جس نے ایک ہی وقت میں امریکی قبضے کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ساتھ ہی اس کے کٹھ پتلی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 861363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش