1
Saturday 9 May 2020 05:34

روزہ تزکیہ نفس کا بہترین اور موثر ذریعہ

روزہ تزکیہ نفس کا بہترین اور موثر ذریعہ
تحریر: محمد عسکری کریمی
جامعۃ الکوثر اسلام آباد


رمضان المبارک کا یہ مہینہ نوع انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، جو رحمتوں اور برکتوں سے مزین ہے۔ جس میں خداوند عالم نے بنی نوع انسان کے لئے ہر قسم کی سعادتیں فرام کی ہیں۔ اس ماہ میں انسان کی تمام سرگرمیاں (ماسوائے گناہ کے)حتی کہ ہر سانس اور نیند کو بھی عبادت میں سے شمار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ خطبہ شعبانیہ میں پیغمبر اسلام فرماتے ہیں: "یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کے یہاں دعوت دی گئی ہے اور تم لوگ کرامت خدا کے مہمان قرار پائے ہو، اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت ہے، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ لہذا تم سب کو اس مہینے میں نیک اور سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ اللہ سے سوال کرنا چاہیئے کہ تمہیں اس مہینے کے روزہ رکھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الہیٰ سے محروم رہا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارکہ کی اہمیت کو  بیان کرتے ہوئے لوگوں کو ذات پروردگار کی طرف رجوع کرنے اور توبہ و استغفار کرنے کی طرف دعوت دی ہے۔ خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گناہ سے دوری اختیار کرنے کو اس مہینے کا سب سے افضل عمل قرار دیا اور انسان جب اپنے نفس میں موجود تمام بری صفات اور گناہوں کی آلودگیوں اور الائشوں سے دوری اختیار  کرتے ہیں تو اسی کا نام تزکیہ نفس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کے وجوب کے ساتھ اس کی وجہ کا بھی تذکرہ  فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿البقرہ: 183﴾ "اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔" یعنی روزہ کا وجوب اس لئے ہے، تاکہ تم متقی بن جاؤ، کیونکہ روزے ہی سے انسان کے اندر وہ تمام کمالات اور صفات پیدا ہو جاتی ہیں، جن سے وہ متقی کے صف میں شامل ہو جاتا ہے اور نفس و روح کی پاکیزگی ہو جاتی ہے۔

قرآن نے اس کو بنی نوع انسان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی (الاعلیٰ:۱۴) "فلاح پا گیا، جس نے پاکیزگی اختیار کی۔" اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "یقیناً فلاح پا گیا (کامیاب ہْوا) وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (پاک کیا)اور نامراد ہوا، وہ جس نے اْسے دبا دیا۔ (آلودہ کیا)۔"(الشمس:۹) ہم سب جانتے ہیں کہ نفس انسان کا سب سے بڑا داخلی دشمن ہے۔ اگر اسے کنٹرول میں نہ رکھا گیا تو وہ اتنا جری ہو جاتا ہے کہ خود انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنی مرضی کا شکار بنا لیتا ہے اور اس کو سرکشی پر آمادہ کرتا ہے۔ دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کے لیے اکساتا ہے، جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان اس کا غلام بن کر اس درجہ گر جاتا ہے کہ اسے اپنی حیثیت کا بھی احساس نہیں رہتا۔

ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہمیں تزکیہ نفس کا بھرپور سامان ملتا ہے۔ جس میں تطہیر قلب اور تزکیہ نفس کے اسباب و ذرائع سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے اور تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ روزہ رکھنا ہے اور روزے کا مطلب بھی یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس حد تک قابو کرلے کہ وہ خواہشات کی تکمیل سے دور رہنے کی تربیت پائے اور لذت کی وہ تمام اقسام جو اس کے منہ کو لگ چکی ہوں، ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے خاطر انہیں ترک کر دیا جائے۔ اس  کی حیوانیخواہشات کو قابو میں لایا جائے، نفس کی چاہت کو مادی اور دنیوی مطالب اور مقاصد سے پھیر کر اعلیٰ رخ دیا جائے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں روزے کا مطلب انسان کے اندر وہ سلیقہ پیدا کیا جائے کہ یہ کسی اور جہاں کی جستجو  کرسکے،  جہاں لطف خوشی کی کوئی انتہاء ہی نہیں اور جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں روزہ انسانی جسم میں شیطان کی باگ دوڑ کے لئے راستہ تنگ کر دیتا ہے، چاہے وہ کھانے پینے کی راہ میں ہو یا دیگر خواہشات کی راہ میں ہو۔ جسمانی آزادی، جوش و جذبہ، غصہ اور دیگر اخلاقی برائیوں کو کم کرکے روح کو معبود حقیقی کی راہ میں تحریک دی جاتی ہے۔

 دوسرا، رمضان دعا اور مناجات کی بہار ہے تو ہر انسان روزہ دار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگی جائیں، اس کی ساری حاجات پوری ہو جائیں، جس سے اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ وہ اتنا کمزور اور لاغر ہے کہ ہمیشہ خالق کا محتاج رہتا ہے۔ اس احساس سے اس کو تکبر و غرور جیسی موزی روحانی بیماری سے نجات ملتی ہے۔ تیسرا یہ کہ   روزے سے انسان ان کیفیات کا بخوبی ادراک و احساس کرسکتے ہیں، جس کرب و اضطراب میں معاشرے میں بسنے والے قابل رحم اور مدد کے طلبگار  افراد گزر رہے ہیں۔ یعنی روزے ہمارے نفس کا تزکیہ اس طرح کرتے ہیں کہ ایک انسان جو مالدار و صاحب ثروت ہے، پھر بھی پورے دن بھوک و پیاس کی شدت سے اسے بھی گزرنا پڑتا ہے، جس طرح ایک غریب عام دنوں میں فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے والے کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، مگر وہ کھا پی نہیں سکتا۔ یہ درحقیقت اس احساس کے جذبہ کو پروان چڑھاتا ہے کہ ایسے غریب لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے، ہم ان کے مشکل وقت میں ان کے کام آئیں۔ ان کیساتھ ہر طرح سے تعاون کیا جائے۔

چوتھا اطمنان قلب حاصل ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کی زیادہ تاکید کی گئی ہے، کیونکہ رمضان المبارک کی قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا اور یہ مہینہ قرآن کی بہار قرار پایا ہے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں: لكل شئ ربیع و ربیع القرآن شھر رمضان۔ (کافی ج2 ص630) "ہر چیز کے لئے بہار ہوتی ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔" جب لوگ اس مہینے میں تلاوت قرآن کو معمول بنائیں گے تو اس سے اطمینان قلب پیدا ہوتا ہے،  جس سے انسان تزکیہ نفس کی منزل کو پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس عظیم مہینے میں زیادہ سے زیادہ اعمال صالح بجالانے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 861531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش