QR CodeQR Code

فلسفہ روزہ

9 May 2020 20:39

اسلام ٹائمز: زبان کا روزہ جھوٹ نہ بولنا، الزام تراشی اور غیبت سے اجتناب کرنا ہے، آنکھوں کا روزہ کسی نامحرم کیطرف انکا نہ دیکھنا ہے، ہاتھوں کا روزہ انکے ذریعے کسی کے حق کو غصب نہ کرنا ہے، پاؤں کا روزہ انکے ذریعے چل کر کسی معصیت کو انجام دینے کیلئے جانے سے اجتناب کرنا ہے، ماہ مبارک رمضان تربیت خودی، تزکیہ نفس، توبہ و استغفار، ذکر و دعا و مناجات اور فقیر و تنگدستوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے انکی مشکلات کو خود درک کرکے ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کا مہینہ ہے۔


تحریر: ایس ایم شاہ

اللہ تعالیٰ کی ذات علم و حکمت والی ہے، حکیم کا کوئی بھی کام خواہ وہ واجب سے مربوط ہو یا حرام سے، دونوں صورتوں میں حکمت سے خالی نہیں ہوسکتا، روزے کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح گذشتہ امتوں پر فرض قرار دیا تھا، اسی طرح مسلمانوں پر بھی واجب قرار دیا ہے۔ لہٰذا یقیناً یہ عبادت بھی حکمت و مصلحت اور فلسفے سے عاری نہیں ہے۔ واجبات کے ساتھ ایسے فوائد پائے جاتے ہیں کہ جن کا ادراک کبھی انسان کر پاتا ہے اور کبھی ان حقائق کی تہ تک پہنچنے سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسی طرح محرمات کے پیچھے بھی ایسے نقصانات پائے جاتے ہیں کہ بسا اوقات سائنسی علوم یا دیگر علوم ان میں سے بعض امور کی نشاندہی کر پاتے ہیں اور بہت سارے موارد میں یہ تمام علوم بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کمال کے لیے خلق کیا ہے۔ کمال تک رسائی کی خواہش ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے جہاں بہت سارے امور کو انجام دینا پڑتا ہے، وہیں بہت سارے امور کو ترک بھی کرنا پڑتا ہے، کھانے پینے سے انسان پیدائش کے وقت سے ہی مانوس ہے، جبکہ روزے کی حالت میں انسان کو اس سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔

اس طرح کے چند دوسرے مباح کام بھی حرام قرار پاتے ہیں تو ان کے ذریعے حرام امور کو ترک کرنے کی ایک پریکٹس ہو جاتی ہے اور یہ پریکٹس پورا ایک مہینہ جاری رہتی ہے، تاکہ اس کے ذریعے پورا سال گناہوں سے اجتناب کرنے کی انسان کو عادت ہو جائے۔ عام حالت میں انسان اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن رہتا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے، غریب اپنی غربت کی حالت میں وقت گزار رہا ہوتا ہے تو امیر اپنے مال و دولت کے حصول میں مگن رہتا ہے۔ اس شخص کو مشکلات کی کیا خبر، جسے زندگی میں کبھی کوئی مشکل آئی ہی نہ ہو۔ اس انسان کو بھوک اور پیاس کی سختی کا کیا احساس، جس نے کبھی ان دونوں کا مزہ چکھا ہی نہ ہو، کھرے کھوٹے کی تمیز امتحان کے وقت ہو جاتی ہے۔ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ روزے کی حالت میں انسان کو اپنے پورے وجود کو کنٹرول میں رکھنا پڑتا ہے۔

زبان کا روزہ جھوٹ نہ بولنا، الزام تراشی اور غیبت سے اجتناب کرنا ہے، آنکھوں کا روزہ کسی نامحرم کی طرف ان کا نہ دیکھنا ہے، ہاتھوں کا روزہ ان کے ذریعے کسی کے حق کو غصب نہ کرنا ہے، پاؤں کا روزہ ان کے ذریعے چل کر کسی معصیت کو انجام دینے کے لیے جانے سے اجتناب کرنا ہے، ماہ مبارک رمضان تربیت خودی، تزکیہ نفس، توبہ و استغفار، ذکر و دعا و مناجات اور فقیر و تنگدستوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کی مشکلات کو خود درک کرکے ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کا مہینہ ہے۔ روزہ نام ہے احساس کا، جس طرح اگر کسی انسان کی حس کام کرنا چھوڑ دے تو اس کے بدن پر جتنے زخم لگیں، جنتی مار پڑے، جتنی بھی تکلیف پہنچائی جائے تو اس شخص کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، اسی طرح جس شخص کا ضمیر مردہ اور روح آلودہ ہو جائے تو اس کے اندر احساس کا مادہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی چھوٹا سا معصوم بچہ بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر بھی جائے تو یہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، اس کے سامنے کسی یتیم بچے کی ماں فقر و نادارای کے باعث جتنی فریاد کرے تو اس کا ضمیر اس کی مدد کرنے کے لیے اسے دھیمی سی آواز بھی نہیں دیتا۔

اس کے ہمسائے کے بچے رات کو بھوکے پیاسے سو بھی جائیں تو اس کا ضمیر اس کی معمولی سی بھی ملامت نہیں کرتا۔ موسم سرما کی ٹھٹھرتی سردی میں کوئی غریب شخص لباس سے محروم ہو، تب بھی وہ اس پر ترس نہیں کھاتا، جبکہ روزے کی حالت میں دعا و مناجات کے ذریعے انسان کے ضمیر پر پڑا پردہ چھٹ جاتا ہے، اس کے اندر ایک باطنی پاکیزگی آجاتی ہے، توبہ و استغفار کے ذریعے گناہوں کے داغ مندمل ہو جاتے ہیں۔ انسان کو بنفس نفیس بھوک اور پیاس کی شدت کا احساس ہوتا ہے، زکوۃ فطرے کی صورت میں غریبوں کی مدد کا بہترین موقع ہاتھ آتا ہے، یوں خود بخود امیر شخص کو غریبوں کی پہچان اور ان تک رسائی کا  سنہرا موقع ملتا ہے۔ اگر کوئی کسی بیماری کے پیش نظر رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کے شرف سے محروم رہے، یہاں تک کہ اگلے رمضان تک اس کی قضا بھی نہ رکھ پائے تو "مُد" کی صورت میں اجناس کا ایک خاص حصہ فقراء و مساکین میں تقسیم کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

یوں معاشرے کے مالدار طبقے اور نادار طبقے میں ایک رابطہ استوار ہو جاتا ہے، جو سال کے دوسرے مہینوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ جس طرح نماز کی حالت میں امیر و غریب اور بادشاہ و خدمت گار سب کو مسجد میں ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہوتا ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

اسی طرح روزہ بھی امیر و غریب سب پر واجب ہے۔ جس کے باعث امیر اور غریب کے مابین طبقاتی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ روزے کی حالت میں انسان کو اپنی شہوات نفسانی کی لگام عقل کے پاس رکھنا پڑتی ہے اور نفس لوامہ کے ذریعے نفس امارہ کو کنٹرول کرنے کی توفیق ملتی ہے؛ کیونکہ نفس امارہ انسان کو غلط کاموں کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ نفس لوامہ برے کام کی طرف انسان بڑھتے ہی اس کی ملامت کرنے لگتا ہے۔ بنابریں روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جسے انسان کی تربیت کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ روزے کے جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی بہت سارے فوائد ہیں کہ جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی علیم و حکیم ذات نے اسے واجب قرار دیا ہے۔


خبر کا کوڈ: 861694

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/861694/فلسفہ-روزہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org