QR CodeQR Code

تحریک آزادی القدس

11 May 2020 16:26

اسلام ٹائمز: خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیئے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے۔‘‘ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کیجانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آباء و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے۔‘‘ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم امت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ: ’’مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں۔‘‘


تحریر: ڈاکٹر سیدہ فائزہ بتول رضوی
(اصغریہ خواتین علم و عمل تحریک پاکستان)
 

اہل دانش اور باضمیر قوموں کی نظر میں مسئلہ فلسطین کی جنگ فقط عربوں اور اسرائیلیوں کی جنگ نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں، محکوموں کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ایسی ہمہ گیر تحریک کا تقاضا کرتی ہے، جس کی خشمگیں موجیں سِتَم کی رسموں اور ان رسموں کی تائید کرنے والی سوچ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم اب تو ہر نظر دیکھ رہی ہے، آئے دن سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ایسی پوسٹیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، جن میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ کہیں اسرائیلی فوج بچوں پر تشدد کرتی نظر آتی ہے تو کہیں مستورات کے نقاب اتار کر اُن کو ظلم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کہیں نوجوانوں کے سینوں میں گولیاں اتاری جا رہی ہیں تو کہیں پالتو بھوکے کتوں کو مستورات پر ان کا بدن نوچنے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کو قیدخانوں میں رکھ کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، فلسطینیوں کے گھروں کو لوٹا جا رہا ہے اور ان کو اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر کے وہاں پر یہودیوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔

فلسطین کے اندر یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام اپنے عروج پر ہے، فلسطینی عوام پر نہ صرف اسرائیلی پولیس اور فوج تشدد کر رہی ہے بلکہ یہودی عوام بھی مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ بعض عرب ممالک کی خاموشی اور اسرائیل نوازی امت مسلمہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہی ہے۔ گویا وہ اسرائیل کے ان مظالم پر خوش اور اسرائیل کو اس طرح کے مظالم کرنے کا حق دے رہے ہیں اور اُس کے ناجائز تسلط کو درست قرار دے رہے ہیں۔ سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر گذشتہ 100 برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ 1948ء کی نسبت کہیں زیادہ پرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔

خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیئے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے۔‘‘ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آباء و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے۔‘‘ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم امت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ: ’’مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں۔‘‘ صہیونیوں کے خواب یقیناً بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انہیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں۔‘‘ نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے 100 سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑے کیے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ 100 سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری امت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک واقعہ میں کہ جب اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے چادردیواری کے تقدس کو پامال کیا تو اُس پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا، اُس کے ردعمل میں اسرائیل نے نہتے احتجاجی فلسطینیوں پر گولیاں چلا دیں، اس کے جواب میں حماس کے القسام بریگیڈ نے اسرائیل پر راکٹ حملہ کیا، جس سے مشتعل ہو کر اسرائیل نے فضائی حملے شروع کر دیئے۔ دراصل اسرائیل اپنے پڑوس میں شام اور عراق کے حالات سے نہایت خوفزدہ ہے اور ایسے حملوں سے وہ مجاہدین پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا ہے، لیکن اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں نہیں رہا۔ حماس، حزب اللہ اور دیگر جہادی قوتیں اب اسرائیل کے خلاف مشترکہ طور پر کمربستہ ہیں، روس، ایران فوجی تعاون سے اسرائیل سخت خائف ہے اور اسے اپنا وجود خطرے میں دکھائی دے رہا ہے، لیکن جب کسی کو موت نظر آرہی ہو تو وہ اپنا آخری حربہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، اس وقت مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور اپنی علاقائی سلامتی کے لیے باہمی اتحاد کی پالیسی پر لوٹ آنا چاہیئے اور ایران کے ساتھ بھی اپنے معاملات پر نظرثانی کرنی چاہیئے کہ جس سے اسلامی ممالک کی طاقت بڑھے گی اور خطے میں مستقل استحکام اور خوشحالی ممکن ہے۔


خبر کا کوڈ: 862063

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/862063/تحریک-آزادی-القدس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org