0
Tuesday 12 May 2020 16:30

کریم اہل بیت امام حسن مجتبٰی (2)

کریم اہل بیت امام حسن مجتبٰی (2)
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

رسول خدا (ص) کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں بعد آپ کے سر سے چاہنے والی ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا تھا، جس بناء پر اب آپ کا صرف ایک سہارا علی (ع) کی مہر و محبت بھری آغوش تھی۔ امام حسن مجتبی (ع) نے اپنے باپ کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور ہمیشہ ہر جگہ پر ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کی حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسی مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہے۔ جب جناب عثمان نے رسول خدا (ص) کے عظیم الشان صحابی جناب ابوذر کو شہر بدر کر کے رَبَذہ بیجھنے کا حکم دیا تو، اس وقت یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی بھی ان کو رخصت کرنے نہ جائے۔ اس کے باوجود بھی حضرت علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن، امام حسین (ع) اور کچھ دوسرے افراد کو اس صحابی با وفا کے ساتھ بھیج کر اسے بڑی شان سے رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کی وصیت فرمائی۔ (1۔2۔3۔4)

سن 36 ہجری میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ روانہ ہوئے اور جنگ جمل میں شرکت کی۔ جس کی آگ کو جناب عائشہ، طلحہ اور زبیر نے بھڑکایا تھا، آپ نے وہ آگ بجھا دی۔ بصرہ کے مقام پر داخل ہونے سے پہلے علی (ع) کے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تاکہ لوگوں کو جمع کریں۔ آپ کی کوششوں اور تقریروں کے نتیجے میں تقریباً 12 ہزار افراد امام کی مدد کے لیے آ گئے۔ 5 آپ نے جنگ کے زمانہ میں بہت شجاعت اور فداکاری کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ امام (ع) کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔ 6 جنگ صفین میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا۔ اس جنگ میں معاویہ نے عبداللہ ابن عمر کو امام حسن مجتبی (ع) کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ آپ اپنے باپ کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں تو، میں خلافت آپ کے لیے چھوڑ دونگا۔ اس لیے کہ قریش ماضی میں اپنے آباء و اجداد کے قتل پر آپ کے والد سے ناراض ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ قبول کر لیں گے۔

لیکن امام حسن (ع) نے جواب میں فرمایا: نہیں، خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا پھر اس کے بعد ان سے خطاب کر کے فرمایا: گویا میں تمہارے مقتولین کو آج یا کل میدان جنگ میں دیکھوں گا، شیطان نے تم کو دھوکہ دیا ہے اور تمہارے کام کو اس نے اس طرح زینت دی ہے کہ تم نے خود کو سنوارا اور معطّر کیا ہے تاکہ شام کی عورتیں تمہیں دیکھیں اور تم پر فریفتہ ہو جائیں لیکن جلد ہی خدا تجھے موت دے گا۔ 7 امام حسن (ع) اس جنگ میں آخر تک اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہے اور جب بھی موقع ملتا، دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادری کے ساتھ موت کے منہ میں کود پڑتے تھے۔ آپ (ع) نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ فرمایا کہ جب حضرت علی (ع) نے اپنے بیٹے کی جان، خطرے میں دیکھی تو مضطرب ہوئے اور کہا کہ: "املکو عنّی ھذا الغلام لا یھدّنی فانّنی انفس بھذین یعنی الحسن و الحسین علی الموت لئلا ینقطع بھما نسل رسول اللہ" اس نوجوان کو روکو تا کہ (اسکی موت) مجھے شکستہ حال نہ بنا دے۔ میں ان دونوں حسن و حسین (ع) کی موت سے ڈرتا ہوں کہ ان کی موت سے نسل رسول خدا (ص) منقطع نہ ہو جائے۔ 8

واقعہ حکمیت میں ابو موسٰی اشعری کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے برطرف کر دیئے جانے کی درد ناک خبر عراق کے لوگوں کے درمیان پھیل جانے کے بعد فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ ایسے افسوسناک موقع پر چاہیئے کہ ان کے خاندان کا کوئی ایک شخص تقریر کرے اور ان کو گمراہی سے بچا کر سکون اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرے، لہٰذا اپنے بیٹے امام حسن (ع) سے فرمایا: میرے بیٹا اٹھو اور ابو موسٰی و عمرو عاص کے بارے میں کچھ کہو۔ امام حسن مجتبٰی (ع) نے ایک پر زور تقریر میں وضاحت کی کہ ان لوگوں کو اس لیے منتخب کیا گیا تھا تاکہ کتاب خدا کو اپنی دلی خواہش پر مقدم رکھیں لیکن انہوں نے ہوس کی بناء پر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا اور ایسے لوگ حَكَم بنائے جانے کے قابل نہیں، بلکہ ایسے افراد محکوم اور مذمت کے قابل ہیں۔ 9۔10 شہادت سے پہلے حضرت علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے فرمان کی بناء پر حضرت حسن (ع) کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اس امر پر امام حسین (ع) اور اپنے تمام بیٹوں اور بزرگ شیعوں کو گواہ قرار دیا۔11 امام حسن (ع) کی اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔

آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلٰی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔ جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے"۔ 12 ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کانپنے لگتے تھے۔  جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے: "حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ" جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔13 امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا، امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔ 14 امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔ 15 تا 19

امام حسن (ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنے تمام اموال کو خدا کی راہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔ ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔20 تا 24 ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو، آپ (ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خداوند نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر آپ (ع) نے یہ آیت پڑھی: "و اذاحُيّیتم بتحيّة، فحَيّوا باحسن منھا" جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔ 25  ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ ملعون کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:

"اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیئے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری رہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے"۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔  آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ 26 مروان ابن حکم کہ جو آپ کا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، امام حسین (ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا، وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو ؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا کہ جس کی بردباری پہاڑ (کوہ مدینہ کی طرف اشارہ) سے زیادہ تھی۔ 27۔28
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع و ماخذ:
1۔ حیاة الامام الحسن ج 1 ص 20،
2۔ مروج الذہب ج 2 ص 341
3۔ تاریخ یعقوبی ج 2 ص 172
4۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 8 ص 255
5۔ کامل ابن اثیر ج 3 ص 227
6۔ حیاة الامام الحسن ج 1 ص 396
7۔ واقعہ صفین، ص۔297
8۔ نہج البلاغہ، فیض الاسلام، خطبہ 198، ص 11660
9۔ الامامہ و السیاسة ج 1 ص 119
10۔ حیاة الامام الحسن، ج 1، ص، 444
11۔ اصول کافی، ج 1 ص، 2971
12۔ تاریخ الخلفاء، ص 189
13۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14
14۔ بحار الانوار ج 43 ص 331
15۔ بحار الانوار ج 43 ص 331
16۔ تاریخ الخلفاء ، ص 190
17۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14
18۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16 ص 10
19۔ تذکرة الخواص، ص 178
20۔ تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215
21۔ بحار الانوار ج 43 ص 232
22۔ تاریخ الخلفاء، ص 190
23۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14
24۔ کشف الغمہ، ج 1 ص 558
25۔ بحار الانوار ج 43 ص 342
26۔ بحار الانوار ج 43 ص 344
27۔ تاریخ الخلفاء، ص 191
28۔ شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 51
خبر کا کوڈ : 862197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش