0
Tuesday 12 May 2020 14:20

مقبوضہ کشمیر، بنیادی انسانی حقوق نام نہاد قومی مفادات کی نذر

مقبوضہ کشمیر، بنیادی انسانی حقوق نام نہاد قومی مفادات کی نذر
رپورٹ: جے اے رضوی

رواں ماہ کی 6 تاریخ کو جب جنوبی مقبوضہ کشمیر میں عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو کو قابض فورسز نے شہید کیا تو اہل کشمیر پوری دنیا کی طرح کورونا مخالف لاک ڈاؤن میں تھے۔ تب انٹرنیٹ و فون سروس کی معطلی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی لیکن سب کچھ عوام کے اندازوں کے برعکس انجام پایا۔ لاک ڈاؤن کے ایام میں جب کہیں کوئی مسلح تصادم ہوتا تھا تو مخصوص علاقے میں ہی مواصلاتی نظام معطل کیا جاتا تھا لیکن ریاض نائیکو کی شہادت کے پس منظر میں کٹھ پتلی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو ایک بار پھر تاریکی میں ڈھکیل دیا۔ بیشتر مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارتی حکومت کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کشمیر کی ملی ٹینسی کے خلاف سخت اقدامات کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہیں۔ جاری لاک ڈاؤن کے نتیجے میں قابض فورسز کو کہیں بھی عوام کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے اور اُنہیں بندشیں عائد کرنے میں بھی زیادہ دقت نہیں ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ طبی بحران کے دوران ابھی تک 30 سے زیادہ عسکری پسندوں کو شہید کیا گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس سال 25 مارچ سے 7 مئی تک مجموعی طور پر 22 تشدد کے واقعات پیش آئے۔ ان واقعات میں کل ملا کر 61 افراد کی اموات ہوئیں جن میں 31 عسکری پسند، 2 اُو جی ڈبلیو، 18 فورسز اہلکار اور 10 عام شہری شامل ہیں۔ ان میں وہ تین عام شہری بھی شامل ہیں جو خط انتظام پر بھارت اور پاکستانی افواج کے مابین ہوئی گولہ بھاری کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔ صرف ماہ جنواری کے دوران 26 ہلاکتیں پیش آئیں جبکہ فروری میں 13 اور مارچ میں بھی 13 افراد ہلاک ہوگئے۔ ماہ اپریل میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 44 تک پہنچ گئی جبکہ ماہ مئی کے پہلے ہفتے میں 15 افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جاں بحق افراد میں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ اور انصار غزوۃ الہند جیسی عسکری تنظیموں کے سرکردہ کمانڈر شامل ہیں۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق قابض فورسز نے پہلے لشکر کمانڈر حیدر، غزوۃ الہند کے کمانڈر برہان کوکا اور آخر پر حزب کے آپریشنل چیف ریاض نائیکو کو جاں بحق کرکے ’’عسکری پسندوں کو قیادت سے محروم کردیا‘‘۔ انسپکٹر جنرل پولیس کشمیر رینج وجے کمار کے مطابق یہ فورسز کے لئے بڑی کامیابیاں ہیں اور ان سے یہاں ملی ٹنسی میں کمی واقع ہوگی‘‘۔ آئی جی کشمیر نے رواں برس کے دوران اب تک 64 عسکری پسندوں کو جاں بحق کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

دوسری طرف ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عسکری پسندوں نے بھی قابض فورسز کے خلاف حملوں میں شدت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ ہفتوں سے عسکری پسندوں کی طرف سے گرینیڈ اور ایسے ہی حملوں میں تیزی آئی ہے۔ عسکری پسندوں کے حالیہ ہی دو حملوں کے نتیجے میں شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں فوج کے ایک کرنل اور میجر سمیت آٹھ اہلکار ہلاک ہوگئے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ نئی دہلی موجودہ صورتحال کو نہ صرف عسکری پسندوں کے خلاف استعمال کررہی ہے بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایسے قدامات کئے جارہے ہیں جن کے بارے میں عام حالات کے دوران ردعمل کی توقع تھی۔ ان معاملات میں اقامتی قانون کا اعلان اور سالانہ ’دربار مو‘ سے متعلق فیصلے بھی شامل ہیں۔ بھارتی حکومت نے اقامتی قانون کا اعلان کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ہی کرکے عام لوگوں کے ردعمل کو ناممکن بنایا اور اب ’دربار مو‘ کے سلسلے میں فیصلے کا انتظار ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی عدالت عالیہ نے پہلے ہی بھارت کی مرکزی حکومت کے لئے راہ ہموار کر رکھی ہے، اب اس ضمن میں آخری فیصلہ آنا باقی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں سال رواں کے آخر تک حتمی فیصلہ متوقع ہے اور عین ممکن ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ صدی پرانے اس عمل ’دربار مو‘ کا خاتمہ عمل میں لایا جائے گا۔

اب ایک طرف کورونا وائرس کا عالمی وباء اور دوسری طرف عسکری پسندی اور اس کے مخالف آپریشن، کشمیری عوام کو جن حالات کا سامنا ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل کشمیر کو ایک ایسی جنگی صورتحال کا سامنا ہے جس میں ان کی جان و مال کے ساتھ ساتھ انکے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو بھی شدید خدشات لاحق ہیں۔ کشمیری عوام کو سیاسی قیادت کی کمی کا بھی سامنا ہے اور سیاسی عمل کی عدم موجودگی کا بھی۔ لوگ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ اُنہیں کس طرح حالات کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور مبصرین و تجزیہ نگار آنے والے حالات کو لیکر بہت زیادہ فکرمند ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا صورتحال نے پہلے ہی کشمیر کے بڑے مالی شعبوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے اور اب پیداواری شعبہ بھی اس کی لپیٹ میں آنے والا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد ہوش ربا ہے اور باہری دنیا میں کام کرنے وانے کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنا سب کچھ لٹا کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہی ہے۔ ایسے میں حصول روزگار کتنا مشکل ہونے والا ہے، یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے۔

المیہ یہ ہے کہ کشمیر کی موجودہ ابتر صورتحال، انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی اور وادی کشمیر کو تاریکی کی نذر کرنے کے لئے بھی بھارتی حکام کے پاس اپنے دلائل ہیں کہ ’’اس سے امن و قانون کی صورتحال قائم رکھی جاتی ہے لیکن اس عمل سے یہاں رہنے والے لوگوں خاص کر طالب علموں، تاجروں اور پیشہ وروں کو کس قدر اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ آج کل کی ڈیجیٹل دنیا کا ہر فرد بخوبی لگا سکتا ہے۔ باہری دنیا کے لوگ اس بات پر حیران ہوکر رہ جاتے ہیں کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بھی کشمیر میں موصلاتی بندشوں کا اطلاق عمل میں لایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت اس بات سے انکار کررہی ہے لیکن دنیا کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائیل فون فی الوقت انسان کی بنیادی ضرورتوں کا اہم حصہ ہے۔ ابھی ماضی قریب میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے بھی انٹرنیٹ کو بنیادی حقوق کا حصہ قرار دیا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ سرینگر سے نئی دہلی تک ارباب اختیار کشمیر کو دفاعی پس منظر میں ہی دیکھنے کے عادی ہیں، اسی لئے وہ انٹرنیٹ یا فون سروس کی بار بار معطلی کو نام نہاد قانون کے دائرے میں قرار دیتے ہوئے اس کو  ملکی سالمیت و قومی مفاد کے کھاتے میں ڈال کر عدالت کے سامنے بھی بچ نکلنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 862223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش