1
Tuesday 12 May 2020 19:08

دہشت گردی اور انارکی کے سہارے عراق میں دوبارہ قدم جمانے کی آرزو

دہشت گردی اور انارکی کے سہارے عراق میں دوبارہ قدم جمانے کی آرزو
تحریر: علی احمدی

امریکہ اور اس کے اتحادی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں اسلامی بیداری کی تحریک پر سوار ہو کر اس خطے میں ایک نیا سائیکس پیکو معاہدہ کرنے کے درپے تھے لیکن بھاری اخراجات کے باوجود انہیں یمن، شام، لبنان اور عراق میں شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ البتہ وہ کچھ حد تک خطے میں اپنی حمایت یافتہ آمرانہ رژیموں کو زوال پذیر ہونے سے بچانے اور اسلامی بیداری کی تحریک کو منحرف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود بعض ممالک میں ان کی کامیابی بہت محدود حد تک تھی اور انہوں نے اپنے کٹھ پتلی نظاموں کے متزلزل کھنڈروں پر نئے نظام تعمیر کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگرچہ وہ عراق اور شام میں داعش جیسے وحشی گروہ کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی پھیلا کر وہاں موجود تیل کے عظیم ذخائر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور مختلف نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ استعماری نظام ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے ذریعے مغربی ایشیا میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش میں مصروف ہے۔

اس منصوبے کے حقیقی بانی صہیونی حکمران ہیں۔ وہ خطے میں اپنے چیلوں کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کر دیا ہے اور اس وقت نئی استعماری جارحیت کا مناسب موقع ہے۔ لہذا انہوں نے شام اور عراق کیلئے نئی سازشیں تیار کر رکھی ہیں اور انتہائی خفیہ انداز میں اسے جامہ عمل پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی حکام خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے یورپی اور عرب اتحادی ممالک کی مدد سے بھرپور انداز میں عراق میں سرگرم ہو چکے ہیں اور تمام تر سیاسی، سکیورٹی، میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا توانائیاں بروئے کار لا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد عناصر کو بھی میدان میں اتار چکے ہیں تاکہ مصطفی کاظمی کی حکومت کو عراق میں امریکہ کی واپسی اور ایران کے انخلا کے پراجیکٹ میں تبدیل کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے بغداد میں امریکی سفارت خانے نے منظم انداز میں انارکی پھیلانے کا منصوبہ بھی تیار کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے زر خرید ایجنٹس کی مدد سے عراقی جوانوں اور عوام کو سڑکوں پر لا کر انارکی پیدا کی جائے گی۔

دوسری طرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کی تنظیم نو کر کے انہیں عراق کی سکیورٹی فورسز کے خلاف گوریلا کاروائیوں کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد مصطفی کاظمی کی سربراہی میں موجود عراقی حکومت کو امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس سازش کا دوسرا حصہ عراق کو تقسیم کرنے پر استوار ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکی حکام دریائے فرات کے مشرقی حصے میں داعش سے وابستہ دہشت گرد گروہ، کرد فورسز اور عرب باشندوں پر مشتمل ایک نیا مسلح دہشت گرد گروہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ رپورٹس کے مطابق امریکی حکام نے عراق کے صوبوں الانبار اور نینوا سے ہزاروں قبائلی باشندوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے خرید رکھا ہے۔ یہ نیا دہشت گرد گروہ تکفیری عناصر، بعث پارٹی سے وابستہ عناصر اور سلفی عناصر پر مشتمل ہو گا۔ دوسری طرف بنجمن نیتن یاہو اور صہیونی فوج کو بھی اس شیطانی منصوبے میں اہم کردار دیا گیا ہے۔ انہیں عراق اور شام میں جارحانہ اقدامات بڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ اس طرح اسلامی مزاحمتی قوتوں کی توجہ اسرائیل کی جانب مبذول کر کے آسانی سے اپنے اہداف حاصل کر سکیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ نیا شیطانی منصوبہ جغرافیائی لحاظ سے وسیع علاقے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا آغاز اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے سے کیا جائے گا۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سینچری ڈیل کے مطابق اردن کے علاقے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کیلئے پر تول رہی ہے جبکہ دوسری طرف توقع کی جا رہی ہے کہ اس اقدام کے بعد خطے میں اسرائیل نواز عرب حکومتیں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنی اسرائیل سے وفاداری کو منظرعام پر لے آئیں گی۔ اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کام میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں لیکن امریکہ نے ان پر ایسا کرنے کیلئے شدید دباو ڈال رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ آئندہ صدارتی الیکشن میں جیتنے کیلئے سینچری ڈیل کو کامیاب بنانا ضروری ہے لہذا وہ جلد از جلد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کے دوستانہ تعلقات منظرعام پر لانے کیلئے بے تاب ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف داعش سے وابستہ دہشت گرد ہمت ہار چکے ہیں اور اب ان میں ماضی کی طرح لڑائی کا جذبہ نہیں پایا جاتا جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی دہشت گردی میں اپنے ملوث ہونے کو چھپا کر رکھنا چاہتا ہے اور اس گٹھ جوڑ کے فاش ہونے سے خوف زدہ ہے۔ اسی طرح محمد بن سلمان بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کی متزلزل پوزیشن سے آگاہ ہے اور ایک حد سے بڑھ کر ان کی اطاعت کرنے پر رضامند دکھائی نہیں دیتا۔
خبر کا کوڈ : 862273
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش