1
2
Tuesday 12 May 2020 19:09

تحریک آزادی القدس

تحریک آزادی القدس
تحریر: محسن علی اصغری
(مرکزی صدر اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان)


فسلطین روز اول سے غاصب اسرائیل کے خلاف برسرپیکار ہے، جس میں تحریک مزاحمت حماس مستقل جدوجہد میں شامل ہے، 70 سال سے فلسطین کے لئے سوائے ایک دو اسلامی ملکوں کے کسی نے بھی مدد کی زحمت نہیں کی، گذشتہ برس فلسطین کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے اور آمریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کروانے کے لئے نام نھاد اسلامی سربراہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے فرمان جاری کیا تھا: ''فلسطینی صدر ٹرمپ کی امن سے متعلق تجاویز قبول کریں یا اپنا منہ بند رکھیں'' مگر یہ فلسطینی بڑے ہی گستاخ ہیں، ویسے بھی پیغمبروں کی بستی کے مکین شاہوں کو خاطر میں کہاں لائیں گے، انہوں نے ٹرمپ کی تجاویز کے ساتھ سعودی شاہزادے کے حکم کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے خلاف سڑکوں پر سینہ سپر ہوگئے۔

ان کے سینے سیدھی چلائی جانے والی گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں، جسموں سے لْہو پھوٹ رہا ہے، جان سے جا رہے ہیں یا لاشیں اْٹھا رہے ہیں، لیکن شہر مقدس کو امریکی داشتہ صہیونیت کا کوٹھا بننے سے روکنے کے لیے برسرپیکار رہتے آرہے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کی صہیونی خواہش اور امریکی ہٹ دھرمی نے امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے بعد عملی صورت اختیار کی تو عالم اسلام سمیت پوری دنیا پر سکوت طاری رہا، لیکن سرزمین انبیاء کے باسی فلسطینی احتجاج کرتے گھروں سے باہر نکل آئے۔ قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرکے کہیں افراد شہید کر دیئے، جبکہ 2700 سے زائد زخمی کر دیئے گئے۔ احتجاج اور مظاہرین پر گولیاں برسانے کا یہ خون میں ڈوبا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ ان کی گولیوں کی زد میں آکر زخمی ہونے والوں میں بچے، خواتین اور صحافی بھی شامل تھے۔ اس ظلم، خوف ناک تشدد اور وحشیانہ سلوک کے باوجود فلسطینی احتجاج کرتے رہے۔

فلسطینیوں پر صہیونی ریاست کے تشدد کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری اور لاتعداد فلسطینیوں کی جانیں لے چکا ہے۔ گذشتہ برس مارچ میں فلسطین کے یوم الارض کے موقع پر فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی واپسی کے عنوان سے اسرائیل کی سرحدی باڑ پار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں فلسطینی اسرائیلی سرحد پر پہنچ گئے تھے، جہاں مظاہرین پر اسرائیلی فوج نے براہ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 40 روز میں صحافی سمیت 60 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے اعلان کے فوری بعد فلسطینی سڑکوں پر جمع ہوگئے اور اسرائیلی فوج اور امریکا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بیت المقدس کی جانب بڑھتے رہے۔ مظاہرین نے ٹائر جلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، جس پر اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا۔

جب ہم اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے شاید چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت بھی فلسطینی نوجوان، بوڑھے، خواتین اور بچے جان ہتھیلی پر رکھے سراپا احتجاج ہوں گے اور اسرائیلی فوجیوں کی گولیاں کسی فلسطینی کے حلقوم، سینے اور سر میں چھید کرکے شیطانی ریاست کے لیے خون کا خراج وصول کر رہی ہوں گی۔ ایک جنگ، مسلسل جنگ، جو ستّر سال سے جاری ہے، ایک دن کے لیے بھی نہیں رْکی۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ ایک طرف جوہری طاقت کے جدید ترین اسلحے سے لیس فوجی، بندوقیں، ٹینک، میزائل، طیارے اور دوسری طرف ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں، گولیاں روکنے کے لیے جرات سے لبریز سینے، بندوقوں کی دھاڑ کے جواب میں نعروں کی للکار! ایک فریق کا سرپرست اور مربی عالمی وڈیرا امریکا، روس سمیت یورپ کی طاقتیں اس کے مظالم اور کالے کرتوتوں پر چْپ سادھے یا پوری منافقت کے ساتھ کمزور سا احتجاج کرکے اْس کی خاموش حلیف، چین اْس کی سفاکیوں اور استحصال پر منہ کان اور آنکھیں بند کیے۔

اْمت مسلمہ کا ایک ٹھیکے دار سعودی عرب مکر کی نقاب سرکا کر اْسے تسلیم کرنے کو تیار، عالم اسلام کی قیادت کا خواب آنکھوں میں سجائے تْرکی کا کردار اْس کی زبانی کلامی مخالفت تک محدود، باقی کی مسلم دنیا اور دیگر ممالک خاموش تماشائی اور دوسری طرف ایران جو اپنے زور و شور سے اپنا واضح موقف کہ فلسطین اپنی تاریخی حیثیت میں آزاد ہو، جس کے لئے حزب اللہ کی اخلاقی امداد سے حماس، فلسطینی عوام اپنی بقاء کی جنگ اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کو صیہونیت کا سیاسی مرکز بنانے سے بچانے کے لیے مصروفِ جنگ۔ کتنے پریشان کْن حالات ہیں، مگر یہ فلسطینی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ مایوس ہوتے ہی نہیں۔ عشروں سے لڑ رہے ہیں، اپنی دھرتی اپنے جسموں سے بھر رہے ہیں، ننھے ننھے بچوں کی لاشیں دفناتے ہیں اور ابھی ناخنوں سے چھوٹی سی قبر کی مٹی دْھل بھی نہیں پاتی کہ پھر خونخوار اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

باہر کی تاریکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ رہی، روشنی تو ان کے سینوں میں بھری ہے۔ ان کے خون میں پیغمبروں کا عزم، جرات اور استقامت لہریں مارتی ہے۔ چنانچہ بمباری سے گھر تباہ کر دیئے جاتے ہیں، روزگار چھین لیا جاتا ہے، پانی کی راہیں روک کر انہیں قطرے قطرے کے لیے محتاج کر دیا جاتا ہے، انہیں ترک وطن پر مجبور کرنے کے لیے ہر جتن کیا جا رہا ہے، لیکن وہ اپنی زمین تو کیا اپنی جدوجہد چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ نہیں۔ فلسطینیوں کی اس استقامت پر صہیونی اور ان کے پرانے حبیب اور نئے دوست کیوں غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ محمد بن سلمان کے لفظوں میں بھی یہی جھنجھلاہٹ پھنکار رہی ہے۔ ''فلسطینی اپنی زبان بند رکھیں'' جیسے رعونت بھرے الفاظ تو شاید کبھی اسرائیل کے حکمرانوں اور ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اسرائیلی رکھیل کے ناز اٹھاتے امریکی صدور نے بھی ادا نہیں کئے۔ یہ زہر بھرا جملہ اپنے اندر بہت سے معنی سموئے ہوئے ہے۔

سعودی عرب کا ولی عہد اور عملی طور پر سعودی مملکت کا بادشاہ بہ الفاظ دیگر فلسطینیوں سے کہہ رہا ہے: ''بکواس بند کرو، ہمارے آقا، ظل سبحانی، میرے سلطان ٹرمپ امن کے نام پر تمھیں جو خیرات عطا کر رہے ہیں، وہ سر جھکا کر ہاتھ بڑھا کر وصول کرو۔ تم جانے کب سے ہمارے لیے مصیبت اور جان کا عذاب بنے ہوئے ہو، تم مسلم اْمہ کی سربراہی اور خیرخواہی اور اسلام کی خدمت کے ہمارے دعوؤں پر سوالیہ نشان اور بدنما داغ بن گئے ہو۔ واشنگٹن سرکار اور ہمارے درمیان مزید قْربت کی راہ میں تم ایک روڑا ہو، جسے ہم آل سعود اپنے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ردعمل کی خوف سے ٹھوکر نہیں مار پاتے، اس لیے مجبوراً دھیرے دھیرے سرکا رہے ہیں۔ اب اپنے ہونٹوں پر تالا ڈال کر چْپ چاپ وہ کھیل دیکھو، جو تم سے کھیلا جارہا ہے۔'' محمد بن سلمان یہ نہیں بھی کہتے تو سعودی عرب کی حالیہ قیادت کے اقدامات فلسطینیوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ سعودی قیادت کیا چاہتی ہے۔

یوں بھی فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کے لیے سعودی اعانت احتجاج اور اخلاقی امداد سے ایک قدم بھی کبھی آگے نہیں بڑھی ہے۔ لہٰذا اپنی جنگ آپ لڑتے فلسطینیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی غمگساری اور ملت اسلامیہ کی غم خواری کے دعوے دار کب اپنے عمل کی طرح دعوؤں پر بھی سیاہی پھیر دیتے ہیں۔ اس وقت فلسطینی ایک ایسے شہر کے تقدس کے لیے میدان میں آئے ہیں، جو امت مسلمہ کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسرا پاکیزہ ترین شہر ہے، جسے ہر مسلمان پوری عقیدت کے ساتھ قبلہ اول کہتا ہے۔ لیکن قبلہ اول کو بچانے کی جنگ صرف فلسطین اور ایران ہی لڑ رہے ہیں۔ کوئی اور مسلم قوم اس معرکے میں صف اول تو کجا ان کی پشت پر بھی نہیں۔ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے یمن پر جنگ مسلط کرنے سے گریز نہیں کرتا، شام میں اپنے وسائل جھونک دیتا ہے، اپنی جنگ بازی کے لیے دنوں میں اسلامی عسکری اتحاد بنا کر کھڑا کر دیتا ہے، امریکا کے اشارے پر افغانستان میں پوری قوت سے ''شریک جہاد''ہو جاتا ہے۔

لیکن مسلم دنیا کے یہ ''قائدین'' اور اسلام کے یہ محافظ اسرائیلی سرحد تو کیا اسرائیل کے سائے سے بھی دور ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تحفظ دینے کے لیے ان ممالک نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، لیکن اسلام کے یہ پاسبان بیت المقدس کی پامالی پر بھی ''غم و غصے کی لہر'' سے زیادہ کچھ نہ دکھا سکے۔ یہ لہر بھی کچھ دن چنگاریاں اْڑا کر سرد پڑ چکی ہے۔ رہی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی تو یہ اقتدار کی مصروفیات سے تھک جانے والے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی گپ شپ کی بیٹھک کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان بھی ریاستی سطح پر کردار سے قطع نظر اب لگتا ہے کہ جیسے فلسطین کا معاملہ جو کبھی دلوں کو گرما دیتا تھا، اب بھولی ہوئی داستان اور گزرا ہوا خیال بن کے رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے ریاست اور شہریوں کو افغانستان پر روس کی یلغار اور امریکی حملے کے بعد جس طرح استعمال کیا، اس کے نتائج نے ہمیں شدید مسائل سے دوچار کرنے کے ساتھ ''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیٹر تْو'' کی خود غرضانہ سوچ کا شکار بھی کر دیا ہے۔

فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور مشرق تا مغرب کسی کی آنکھ میں آنسو تک نہیں۔ محمد بن سلمان نے جو بات کہہ دی، لگتا ہے سارے حکمراں خاص طور پر مسلم دنیا کے صاحبان اقتدار فلسطینیوں کو انہی الفاظ میں جھڑک رہے ہیں، ''فلسطینیوں اپنا منہ بند رکھو، خون کا بہتا دریا دیکھو، لیکن زبان سے اْف تک نہ نکلے، اپنے کم سِن بچوں کی لاشیں زمین میں اْتارتے رہو، لیکن سسکی بھی بلند نہ ہو، تمھارے شہر لْٹیں، عزتیں پامال ہوں؛ لیکن خبردار جو حرف انکار بلند کیا۔ چْپ، ایک دم خاموش، ہماری نیند میں خلل مت ڈالو! ہم امریکی محبوب کے ساتھ ملن کا گیت گا رہے ہیں، تمھاری آواز مخل نہ ہو۔ اس صورتحال میں ایک ہی امید ہے، جو کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے دی، جو کہ جمعۃ الوداع یوم القدس ہے، جو کہ اسلامی دنیا سمیت دنیا کے اکابرین کو بیدار کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔

یوم القدس مظلومین جہان کی نصرت اور حمایت کا دن ہے، جس سے ظالم اسکتبار پہ لرز طاری ہے، یوم القدس کو مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منانا واجب قرار پایا ہے، جس کے بعد ایران، عراق، شام، لبنان، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن کو اسلامی دنیا سرکاری سطح پہ منائے، مکمل جوہر کے ساتھ میدان میں آئے اور فلسطین کی تاریخی حیثیت میں بحالی، اسرائیل کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے جاندار موقف اختیار کرے، جس سے فلسطین کے درد کا سدباب ممکن ہے۔ پاکستان میں اسلامی تنظیمیں اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان، اصغریہ تحریک، اصغریہ خواتین تحریک سمیت دیگر ملی جماعتیں براداران اہلسنت سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر یوم القدس کا انعقاد کر رہی ہے، جس سے فلسطینی عوام کے آواز کو تقویت ملے گی، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 862315
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Yasir Ali
Pakistan
ما شاء الله قبلہ
القدس لنا
ہماری پیشکش