1
Wednesday 13 May 2020 01:02

دشمن کی ضرب اور دوست کی بے حسی

دشمن کی ضرب اور دوست کی بے حسی
تحریر: نذر حافی

علمِ تاریخ کو چار طرح کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلا مقصد ظالم بادشاہوں کے چہروں پر نقاب ڈالنا ہے۔ اس مقصد کیلئے تاریخ کو مقدس صحیفہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے، اس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آو۔ دوسرا مقصد لوگوں کو جاہل رکھنا ہے، اس مقصد کیلئے لوگوں کو تاریخی قصے و کہانیاں سنا کر، تاریخی ڈرامے اور فلمیں بنا کر اُنہیں مختلف مقاصد کیلئے ابھارا اور اُکسایا جاتا ہے، حکمرانوں کا طبقہ عوام کو جاہل رکھنے کیلئے تاریخ لکھواتا بھی ہے اور تاریخ کو استعمال بھی کرتا ہے۔ تاریخ کا تیسرا استعمال، لوگوں کو اُن کی خودی اور شناخت سے محروم کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے اقوام اور مذاہب کی تاریخ کا چربہ بنایا جاتا ہے۔ مثلاً مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بدظن کرنے کیلئے اسلام کی تاریخ کو دیگر ادیان کی تاریخ سے مخلوط کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا میں توحید، وحی اور انسانی اخلاقی اقدار کا تصور موجود تھا، دینِ اسلام کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ سابقہ ادیان سے لیا گیا ہے۔ تورات و زبور و انجیل میں قرآن مجید سے پہلے یہ سب کچھ موجود تھا۔

ایسی باتیں کرکے کسی بھی انسان سے اس کا اعتماد بالنفس چھینا جاتا ہے اور جو اعتماد بالنفس کھو دے، اُسے کوئی بھی اپنا غلام بنا سکتا ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں مسلمانوں کو بار بار اعتماد بالنفس اور خودی کی طرف دعوت دی ہے۔ تاریخ کا چوتھا استعمال کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا ہے، واقعات کو عقل، منطق، فلسفے، عمرانیات، تہذیب اور تمدن کی کسوٹی پر اس طرح پرکھنا ہے کہ ہدایت گمراہی سے، حق باطل سے اور سچ جھوٹ سے جدا ہو کر روشن ہو جائے۔ تاریخ کے چوتھے استعمال کے مطابق تاریخ کسی بھی قوم کا دماغ، اس کی یاداشت اور اس کا حافظہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دماغ میں سچ اور جھوٹ، اچھائی اور برائی، نیز کھرے اور کھوٹے کی تمیز نہ رہے تو اُسے پاگل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جو قوم اپنی تاریخ پڑھنے کے بعد صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کرتی، وہ دیگر اقوام کے درمیان ہمیشہ پاگلوں کی طرح  افراط و تفریط کی شکار رہتی ہے۔ وہ حدِ اعتدال سے یا آگے چلی جاتی ہے اور یا پھر پیچھے رہ جاتی ہے۔

ایسی قوم ایک طرف تو انسانی فلاح و بہبود کے نعرے لگاتی ہے، اذان میں ہر روز پانچ مرتبہ حی علی الفلاح کی صدائیں بلند کرتی ہے، انسانی ہمدردی کیلئے زکواۃ اور خمس کو واجباتِ دین میں سے قرار دیتی ہے اور دوسری طرف خودکش حملے کرکے بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ ایک طرف قرائت قرآن، حفظ قرآنِ مجید، نماز و روزہ اور اطاعت خدا و رسول ﷺ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف جس اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتی ہے، اُسی کے برگزیدہ مہینے رمضان المبارک میں، اللہ کی کتاب کے نازل ہونے والی راتوں میں، اللہ کے گھر میں، اللہ کی عبادت کی حالت میں اللہ کی مسجد میں اُسی کے خلیفے کو حالتِ سجدہ میں شہید کر دیتی ہے۔ یہ شہادت اس لئے ہوئی کہ قوم حق و باطل، سچ و جھوٹ اور صحیح و غلط کو ایک جیسا سمجھتی تھی، لوگ حق کو حق اور صحیح کو صحیح سمجھتے ہوئے بھی حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔

انیس رمضان المبارک کو حضرت علیؑ کے سر پر جو ضرب لگی، اس کا سب سے بڑا نقصان خود حضرت انسان کو ہوا، اُس کے بعد انسان صراط مستقیم سے منحرف ہوگیا۔ قاتل نے صرف کسی ایک عام انسان کو قتل نہیں کیا بلکہ انسانیت کے کعبے کو گرا دیا، ہدایت کے چراغ کو بجھا دیا، کشتی نجات کے بادبان کو سرنگوں کر دیا، بلکہ یوں سمجھئے کہ قافلہ بشریت کے سالار کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس کے بعد آج تک یہ امت کسی قیادت پر متفق نہیں ہوسکی۔ انسان نے جس مرکز سے متصل ہو کر خدا پر ایمان لانا تھا، اُس مرکز کو اکھاڑ دیا گیا۔ پھر اس شہادت کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو نادان قومیں کیا کرتی ہیں۔ اس شہادت سے بھی لوگوں نے سوئے استفادہ کیا، کچھ نے تاریخ کا چربہ بنایا اور اس قتل کا ذمہ دار ابن ملجم اور خوارج کو قرار دے کر اصلی قاتلوں کو چھپانے کی کوشش کی اور کچھ نے اس قتل کے بعد قاتلوں کا تعاقب کرنے اور مقتول کی سیرت اور اہداف کو روشن کرنے کے بجائے صرف ماتم و آہ و زاری و نوحہ خوانی و گریے کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا۔

یہ دونوں نظریات عقل و منطق کے خلاف ہیں، ہم نہ ہی تو آنکھیں بند کرکے ابنِ ملجم اور خوارج کو اصلی قاتل قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی صرف ماتم و نوحہ خوانی کو ہی اس قتل کی تلافی سمجھتے ہیں، چونکہ انیس رمضان المبارک کو  عالم بشریت کا اتنا بڑا نقصان ہوا ہے کہ اگر کائنات کا ہر فرد ماتم اور نوحہ خوانی کرے تو پھر بھی یہ خلا پُر نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ دینا آسان ہے کہ حضرت امام علیؑ کے قاتل خوارج ہیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ خوارج کب اور کیسے وجود میں آئے۔؟ اہلِ تحقیق کیلئے تحقیق کا دروازہ کھلا ہے، وہ تحقیق کر لیں کہ اس شہادت کا حقیقی محرک کون تھا!؟ خوارج تو ہمارے آج کل کے داعش اور دیگر دہشت گرد ٹولوں کی طرح کرائے کے قاتل اور آلہ کار تھے۔ خوارج کو داعش کی طرح بدنام کیا گیا، لوگ خوارج کو برا بھلا کہتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ خوارج کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے، امام علیؑ کو شہید کرنا کس کیلئے ضروری تھا!؟ خوارج نے امام علیؑ کو شہید کرکے کس کے ایجنڈے کی تکمیل کی۔؟

تاریخِ اسلام میں اس طرح کے مخفیانہ قتل پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، خلیفہ اوّل کی دُختر اُم المومنین حضرت عائشہ اور خلیفہ اوّل کے فرزند عبدالرحمن بن ابی بکر کی موت بھی مخفیانہ طور پر ہوئی، مختصراً خلیفہ سوم کے قتل کی راہ ہموار کرنے والوں کو باغی کہہ کر چھپا دیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت خلیفہ سوم کے قتل کے تانے بانے بھی انہی لوگوں سے جا کر ملتے ہیں، جو اقتدار پر قبضہ کرنے کے خواہاں تھے۔ جس طرح خلیفہ سوم کے قاتلوں کو باغی کہہ کر چھپا دیا گیا، اسی طرح خلیفہ چہارم کے قاتلوں کو بھی خارجی کہہ کر حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا۔ دراصل صدرِ اسلام میں مرکزِ خلافت پر حملے، خلفاء کے خلاف بغاوتیں، ان کے خلاف لشکر کشی اور ان کے قتل کے منصوبے، صرف اور صرف اسلامی حکومت پر قبضے اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کیلئے تھے۔

تاریخی طور پر خلیفہ اوّل کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ابو سفیان کا کردار کسی سے مخفی نہیں، اس نے حضرت امام علیؑ کو بغاوت پر اکسانے کی پوری کوشش کی، وہ مسئلہ خلافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے درپے تھا۔ اس نے امام علیؑ  سے کہا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ بغاوت نہیں کر رہے، اگر آپ کہیں تو میں خلیفہ اول کے خلاف مدینے کو سواروں اور پیدل لشکروں سے بھر دوں۔ اس پر امام علیؑ نے ابو سفیان کو دندان شکن جواب دیا کہ اے ابوسفیان واپس پلٹ جا، تو نے ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں ہی کی ہیں۔ ابوسفیان وہاں سے ناکام پلٹا، لیکن مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور خلافت پر قبضہ کرنے کی چالیں جاری رہیں، یہانتک کہ امیرالمومنینؑ تخت ِخلافت پر رونق افروز ہوئے، اس کے بعد ہر تجزیہ و تحلیل کرنے والے کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ خلیفہ چہارم کے قتل میں وہ اشعث ہو، قطام ہو، خوارج ہوں یا ابن ملجم، یہ سب ثانوی کردار ہیں۔ اصلی محرک اور حقیقی قاتل کوئی اور ہے۔

دوسری طرف یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت امام علیؑ کوئی طلسماتی اور خیالی شخصیت نہیں ہیں، بلکہ آپ مسلمانوں کے حقیقی امام اور خلیفہ ہیں، آپ نے اسی دنیا میں لوگوں کے درمیان ایک عادی زندگی بسر کی ہے، آپ نے حکومت بھی کی اور عدل و انصاف بھی کیا، آپ نے شادیاں بھی کیں اور اولاد کی تربیت بھی کی، آپ نے ہمسایوں کے حقوق بھی ادا کئے اور لوگوں کی مشکلات کو بھی حل کیا، آپ نے جنگیں بھی کیں اور خیرات بھی کی۔ جس طرح امام علیؑ کے اصلی قاتلوں کو فراموش کر دینا ظلم ہے، اُسی طرح امام علیؑ کی سیرت و کردار کو فراموش کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔ اگر ہمارے نزدیک امام علیؑ مشکل کشا ہیں تو پھر ہمیں بھی دوسروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے تگ و دو کرنی چاہیئے، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ یتیموں کی پرورش کرتے تھے تو ہمارے دستر خوان پر بھی یتیم پلنے  چاہیئے۔

اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ایام خلافت میں امیرالمومنینؑ کے لباس پر پیوند لگے ہوتے تھے اور آپ نمک کے ساتھ افطار کرتے تھے، یعنی معاشرے کے سب سے بلند منصب “خلافت” پر موجود شخص ایک غریب ترین انسان کی طرح کی زندگی گزارتا تھا تو پھر ہمیں بھی سادہ ترین اندازِ حیات اپنانا چاہیئے۔ سازشی عناصر نے ابنِ ملجم کے ذریعے جو ضرب امام علیؑ کے سر پر لگائی، اس پر ہم روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، اور غم مناتے ہیں، لیکن ہماری بے عملی، عدمِ تحقیق، بے حسی، فکری جمود اور جہالت و پسماندگی سے جو ضرب امام علیؑ کی سیرت کو لگتی ہے، اس سے ہم غافل ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کب یہ احساس ہوگا کہ دشمن کی ضرب اور دوست کی بے حسی، دونوں کی تاثیر ایک جیسی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استفادہ:
الطبری، ابی جعفر محمد بن جریر (متوفای۳۱۰)، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۰۹۔   
الطبری، ابی جعفر محمد بن جریر (متوفای۳۱۰)، تاریخ الطبری، ج۳، ص۲۰۹۔
الطبری، ابی جعفر محمد بن جریر (متوفای۳۱۰)، تاریخ طبری ج۳، ص۲۰۹، قسمت آغاز خلافت ابوبکر۔
الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم ابی عبدالله العکبری، البغدادی (متوفای۴۱۳ ه)، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج۱، ص۱۹۰، 
تحقیق: مؤسسة آل البیت (علیهم‌ السّلام) لتحقیق التراث، ناشر: دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع - بیروت - لبنان، الطبعة:الثانیة، ۱۴۱۴ه - ۱۹۹۳م۔
خبر کا کوڈ : 862334
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش