1
Wednesday 13 May 2020 17:38

امیر المومنین حضرت علی (ع) کی سیاسی، مالی و اخلاقی سیرت

امیر المومنین حضرت علی (ع) کی سیاسی، مالی و اخلاقی سیرت
مدرس: استاد محترم سید حسین موسوی
ترتیب: عاطف مہدی سیال


ماہ مبارک رمضان میں انسان خود کو قرآن مجید کے قریب کرے چاہے وہ قرآنِ صامت قرآن ہو یا ناطق قرآن، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ناطق قرآن کے حوالے سے ہمیں مولا کی سیرت کے قریب جانے کی ضرورت ہے جتنا مولا کے سیرت کے قریب جائیں گے اتنا ئی قرآن کے قریب جائیں گے۔ قرآن پاک میں جتنے بہی اخلاق بتائیں گے وہ سب رسول خدا کی طرح امیر المومنین میں اعلٰی درجے میں موجود ہیں ہمیں اخلاق پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کیوںکہ انسان مومن مومنہ اخلاق سے بنتا ہے اور کافر بہی کافرانہ اخلاق کی وجہ سے بنتا ہے۔۔ہمیں مولا کی سیاسی اور اخلاقی زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم سمجھ جائیں تو کافی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

1۔ امیر المومنین کی سیاسی زندگی:
ہماری اکثر سوچ یہ ہے کہ سیاست میں سچ ہوتا ہی نہیں ہے، سیاست صرف جھوٹ ہوتی ہے، سیاست چلتی ہے جھوٹ سے ہے، لیکن امیر المومنین نے اس سیاست کے عروج پہ ہوتے ہوئے بھی سچ کو اپنایا اور کبھی جھوٹ نہیں بولا اور وہی سیاست کامیاب ہے کیوںکہ وہ انسان کو خدا کے قریب لاتی ہے، ہمارے پاس سیاست کا مقصد ہی الگ ہے، اصل سیاست کا مقصد انسانوں کو خدا کے قریب کرنا ہے اور سچ ہی انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے، جھوٹ نہیں۔ امیر المومنین نے اپنی سیاست میں صداقت اپنائی ہے اور مولا نے اس سیاست کو مظلوموں کی خدمت کا ذریعہ سمجھا ہے دراصل حکومت کا مقصد مظلوموں کی حمایت کرنا ہے، اللہ تعالٰی نے حکمران بنائے ہی اس لیے ہیں کہ ایک طاقتور ظالم سے کمزور مظلوم کو حق دلائیں تاکہ معلوم ہو اللّٰہ تعالٰی کا قانون اعلٰی ہے، اللّٰہ تعالٰی کا عدل اللّٰہ کا ہے۔ امیر المومنین جب حکومت پر آئے تو انکا لباس، رھائش اور کھانا بہت ہی سادہ تھا، مولا نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں، "جو امام، حکمران یا رہبر بنتا ہے اس کی خدا کی طرف سے ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو اس جیسا رکھے جو حکومت میں سب سے غریب ہیں، اگر اسکے پاس اپنی ذاتی ملکیت ہے تب بھی وہ اپنے لیے بھتر کھانا، بھتر لباس اور رھائش نہیں اپنا سکتا اسلامی حکومت کے حوالے سے یا تو وہ عیش و آرام کا انتخاب کرے یا پھر حکومت کا"۔

الف۔ امیر المومنین کا لباس:
ابن مطر روایت کرتا ہے کہ "میں کوفہ گیا ہوا تھا، اتنے میں میرے پاس سے ایک شخص گذرا، لوگوں نے کہا کہ یہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، راوی کہتا ہے کہ میں انکے پیچھے گیا، مولا ایک درزی کے پاس رکے اور اسے کہا کہ آپ کے پاس جو دو درھم کا لباس ہے وہ مجھے دیں (اس دور میں 2 درھم کا لباس بہت ہی سادہ لباس تھا) مولا نے وہ لباس پہنا اور دعا کی کہ اللّٰہ کی حمد جس نے میرے اس جسم کو چھپانے لیے مجھے ایسا بھترین لباس عطا کیا۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولا کا لباس اس دور کے غریبوں جیسا تھا۔۔

ب۔ امیر المومنین کا کھانا:
راوی کہتا ہے کہ میں امیر المومنین سے ملنے گیا ان کے سامنے لسی پڑی ہوئی تھی، جسے دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے پڑی ہوئی ہے، اتنے میں مولا نے تھیلی میں سے جو کی روٹی نکالی اسے توڑا اور کھانا شروع کیا اور مجھے بھی کہا کہ آئیں کھانا کھائیں اور جب میں قریب گیا اور وہ کھانا دیکھ کر خود کو روکا اور سوچا کہ میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا اور وہ کہتا ہے کہ مین نے جناب فضہ کو کہا آپ کچھ احساس ہونا چاہیئے، مولا کے لیے کچھ بہتر کھانا رکھیں، تو جناب فضہ کہتی ہیں امیر المومنین خود یہ کھانا اور جو کی روٹی تھیلی میں رکھ کر اس پہ مھر لگاتے ہیں تاکہ ہم اس کے اندر اور اور کچھ شامل نا کر سکیں۔۔ یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا سادہ کھانا تھا۔

ج۔ امیر المومنین کی رہائش:
آپ مسجد کے پاس ہی ایک کچے مکان جو کہ کرائے پہ لیا ہوا تھا پوری فیملی کے ساتھ اس میں رہتے تھے۔۔ اس سادگی کے باوجود بھی امیر المومنین نھج البلاغہ میں خط نمبر 45 میں جو بصرے کے گورنر عثمان بن عنیف کو لکھا تھا آپ فرماتے ہیں، "تمہارے امام نے اس دنیا میں دو روٹیوں اور اس لباس پر صبر کیا ہے اور فرماتے ہیں میں ابھی بھی خوف میں ہوں کہ ہو سکتا ہے حجاز ہو، یمامہ میں کوئی ایسا شخص ہو جس کو یہ دو روٹیاں بھی میسر نہ ہوں"۔ امیر المومنین کی یہ سیاسی زندگی ہمارے لیے مثال ہے۔۔

2۔ امیر المومنین کی مالی سیرت:
ایک دفعہ مولا کے پاس کچھ مال آیا اور مولا نے حکم دیا کہ اسے تقسیم کیا جائے، کیوںکہ مولا بیت المال میں مال جمع نہیں کرتے تھے جو آتا تھا حقدار تک ہہنچا دیتے تھے، بیت المال والوں نے کہا کہ مولا رات دیر یو گئی ہے رات گذرنے دیں، انشاءاللہ صبح کو تقسیم کریں گے، مولا نے فرمایا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ صبح میں زندہ رہوں گا؟ کہنے لگے مولا ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو مولا نے فرمایا پھر آج ہی تقسیم کریں، چراغ لایا گیا اور رات کو ہی وہ مال تقسیم کیا گیا، جب بھی بیت المال میں مال آتا تھا مولا حقداروں تک پہنچانے کے بعد بیت المال کو صاف کر کہ اور دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرماتے تھے یا اللّٰہ جس کا حق تھا اس حقدار تک پہنچا آیا ہوں۔۔ یہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مالی سیرت ہے۔۔

3۔ امیر المومنین کی اخلاقی سیرت:
ضرار مولا کی شہادت کے بعد کوفے سے شام گیا تھا تو امیر شام نے اس سے پوچھا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حالات بتاؤ، تو وہاں پہ ضرار نے جو ایک جملہ کہا "اللّٰہ علی ابن ابی طالب پر رحمت فرمائے، مولا ہم میں ایسے رہتے تھے جیسے ہمارا ہی کوئی حصہ ہوں، مولا ہمارے درمیاں ہم جیسے ہی بن کر رہتے تھے"۔ یہ ہم جیسا بن کر رہنا ہی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کمال ہے۔۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس پانچ سالہ دور حکومت میں وہی اخلاق ظاہر کیا ہے جو انہوں نے رسول خدا سے سیکھا تھا۔ ایک دفعہ آپ کوفہ سے باہر تھے اور کوفہ کی جانب واپس آرہے تھے تو ایک غیر مسلم راستے میں آپکا ساتھی بن گیا، اس نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ مولا نے فرمایا مجھے کوفہ جانا ہے، اس نے کہا مجھے دوسری جگہ جانا ہے۔

جہاں پر آکر رستہ الگ ہونا تھا تو مولا کوفہ والا رستہ چھوڑ کر اس کے راستے پر اس کے ساتھ چل پڑے، تو اس نے کہا آپ شاید بھول گئے ہیں آپکو کوفہ جانا تھا، مولا نے فرمایا مجھے یاد ہے مجھے کوفہ جانا تھا اور جانا ہے تو اس نے کہا وہ راستہ تو آپ نے چھوڑ دیا، مولا نے فرمایا! مین نے جان بوجھ کر چھوڑا ہے، کیوںکہ رسول خدا  (ص) نے ہمیں تاکید فرمائی ہے کہ ہمسفر کا حق یہ ہے کہ کچھ دیر اس کے ساتھ اسکے راستے پر چلیں اسے الوداع کریں، اس لیے میں آپ کے ساتھ آیا ہوں تاکہ تمہارے راستے پر چل کر تمیں الوداع کہوں، اس نے حیران کو کر کہا کیا آپ کے نبی نے ایسا فرمایا ہے؟ مولا نے کہا جی ہاں، تو اس شخص نے کہا یہ واقعی انبیاء کا اخلاق ہے اس نے امیر المومنین کے اس اخلاق کو دیکھ کر دین اسلام قبول کیا اور مسلمان ہو گیا۔۔ امیر المومنین نے کبھی بھی سنت رسول کو تبدیل نہیں کیا اور ہمیشہ سنت رسول پر ہی عمل کیا ہے۔

الف۔ امیر المومنین کی یتیموں سے محبت:
کوفہ میں جنگ جمل میں، صفیں میں مولا کے ساتھی شہید ہوئے ان سب کے یتیم ہوتے تھے کوفے میں مولا اکثر ان کے ساتھ وقت گذارتے تھے ایک دفعہ شہد کی مشکیں بھر کر آئیں تو مولا سب کو ایک برتن میں دیتے رہے لیکن یتیموں اپنے پاس بلایا اور مشکوں کے منہ کھول کر فرمایا آپ کھائیں جتنا کھا سکتے ہیں، کسی نے پوچھا کہ یا علی ہمیں تو حساب کر کہ دیتے ہو اور انہے سارا دے دیا، تو مولا نے فرمایا امام یتیموں کا بابا ہوتا ہے، اس لیے یہ اپنے بابا کا مال کھا رہے ہیں اور یہ انکا حق ہے۔۔
اس قدر امیر المومنین یتیموں سے محبت کرتے تھے۔۔

ب۔ امیر المومنین کا اپنے قاتل سے اخلاقی رویہ:
جب عبدالرحمان ابن ملجم پکڑا گیا اور اسے مولا کے سامنے لایا گیا تو مولا نے اس سے فرمایا! اے عبدالرحمان کیا میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟؟ جب اس نے کچھ بولنا چاہا اور بول نہ پایا تو مولا سمجھ گئے کہ اس کا گلا خشک ہو گیا ہے، اس لیے بول نہیں پا رہا، اسی وقت مولا کے لیے ایک شربت آیا تھا جو طبیب نے نسخے کے طور پر مولا کو دیا تھا تا کہ درد کم ہو، مولا نے فرمایا کہ یہ شربت اسے پلاؤ۔۔ دیکھیں مولا کا اخلاق کس درجے کا ہے، یاد رکھیں سزا اپنی جگہ ہے، سزا کے لیے مولا امام حسن علیہ السلام کو وصیت کر چکے ہیں، اس نے مجھے ایک ضرب ماری ہے آپ بھی اسے ایک ضرب مارنا، سزا اپنی جگہ ہے لیکن اخلاقی رویہ اپنی جگہ ہے۔ اھلبیت کا اخلاقی رویہ ہمیشہ خوبصورت ترین رہا ہے لیکن افسوس ہم نے اھلبیت سے اخلاق لیا ہی نہیں ہے ہم نے قرآن سے اخلاق لیا ہی نہیں ہے، ہمارا اخلاق ان جیسا ہے جو اھلبیت کے قاتل ہیں، یا انکے مخالف ہے یا تو پھر انکے دشمن ہیں ہمارے کردار میں جھوٹ ہے، بد اخلاقی ہے یہ کردار اھلبیت کا کردار نہیں ہے اس لیے ہمیں اھلبیت سے اخلاق لینے کی ضرورت ہے، انسان دنیا و آخرت میں سکون اسی اخلاق سے حاصل کر سکتا ہے، ہمیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اخلاق اپنی زندگی میں اپنانے ہیں تا کہ ہم بھی علی والے بن سکیں۔۔
خبر کا کوڈ : 862481
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش