0
Thursday 21 Jul 2011 03:35

شہباز شریف نے وعدہ ایفا کر دیا

شہباز شریف نے وعدہ ایفا کر دیا
 تحریر:زاہد مرتضٰی
لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی 14 سال بعد قتل و دہشت گردی کے 252 سے زائد مقدمات میں رہائی نے 1990ء کی دہائی کے ان تلخ اور ناگوار واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے، جب اس دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی نے ملک کے طول و عرض میں مکتب تشیع کے سینکڑوں عام افراد، تنظیمی عہدیدار، علماء اور اعلٰی افسران کا قتل عام شروع کر رکھا تھا۔ دہشت گردوں کی دست برد سے پولیس افسران اور ہمسایہ ملک کے سفیر تک بھی محفوظ نہ رہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آج ملک کو درپیش انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کی بنیاد 25 برس قبل کالعدم فرقہ پرست تنظیم سپاہ صحابہ کی بیرونی اشارے پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم اور لشکر جھنگوی کی دہشت گرد کارروائیوں نے فراہم کر دی تھی۔ ان فرقہ پرست اور جہالت پر مبنی نظریات رکھنے والی تنظیموں نے انتہا پسندی و دہشت گردی کی جو فصل پچیس برس قبل کاشت کی، اس سے آج القاعدہ و طالبان کی شکل میں موجود دہشت گرد گروہ استفادہ کر رہے ہیں، بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ القاعدہ و طالبان درحقیقت لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کا Latest Version ہیں۔ 9/11 کے بعد القاعدہ کیخلاف امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ آپریشن شروع ہونے سے اسکی اعلٰی قیادت رفتہ رفتہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے لگی تو قیادت کے فقدان کے باعث القاعدہ کے آپریشنل ونگ کی قیادت لشکر جھنگوی کی پہلے سے مفرور قیادت کے پاس جا پہنچی، ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں ملوث اہم افراد قاری ظفر، امجد فاروقی، اکرم لاہوری، ڈاکٹر عثمان کی نظریاتی ساخت پرداخت اسی دہشت گرد تنظیم کی مرہون منت ہے۔ جو بعدازاں القاعدہ و طالبان کا ایک اثاثہ ثابت ہوئے۔ 
بعض ذرائع کا تو یہ دعویٰ ہے کہ آج کل القاعدہ کا آپریشنل ونگ مکمل طور پر لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے پچھلے کچھ عرصے کے بیانات اُٹھا کر دیکھ لیں، جس میں وہ اس حقیقت کا کھلے عام اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں ہونے والی دہشتگردی کی تمام وارداتوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے۔ جو اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ ہمارے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں، جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات میں لشکر جھنگوی ملوث ہے۔ یہ بات وضاحت طلب ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت اور خفیہ ایجنسیوں نے ایسی اطلاعات رکھنے کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نیٹ ورک کے سربراہ کو کیسے رہا کر دیا۔؟
پچھلے کچھ عرصے میں ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر کارروائی کے بعد خفیہ اداروں نے گرفتار دہشت گرد ملک اسحاق سے تفتیش کی، جو خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم ملک میں دہشت گردی کی ہر واردات میں ملوث ہے۔ ملک اسحاق کو 2007ء میں لال مسجد آپریشن کے دوران مذاکرات میں شریک کیا گیا۔ 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر کیے گئے حملے کے دوران دہشت گرد ڈاکٹر عثمان اور اس کے ساتھیوں نے 43 اعلٰی فوجی افسر اور دیگر افراد یرغمال بنا لیے۔ ان دہشت گردوں کا مطالبہ تھا کہ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق سمیت 100 سے زائد دہشتگردوں کو رہا کیا جائے۔ بعدازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک اسحاق، احمد لدھیانوی، فضل الرحمٰن خلیل (سربراہ حرکۃ المجاہدین) اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبد الرؤف کو ان دہشت گردوں سے مذاکرات کیلئے لاہور، بہاولپور اور  رحیم یار خان سے راولپنڈی لایا گیا۔ فوجی حکام نے ان تمام افراد سے درخواست کی کہ حملہ آوروں سے مذاکرات کریں، ان مذاکرات کے بعد مغویوں کو رہا کر دیا گیا، اگر ان تمام افراد کا اغوا کاروں اور حملہ آوروں سے کوئی تعلق نہ تھا تو انہیں کیوں زحمت دی گئی۔؟ حملہ آوروں کا مغویوں کو آزاد کر دینا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مذاکرات کار دہشتگردوں سے کوئی نہ کوئی ربط رکھتے تھے۔ بعدازاں مغوی افراد کی رہائی نے ثابت کر دیا کہ دہشتگردوں نے اپنے بزرگوں کی بات تسلیم کر لی اور گرفتاری پیش کر دی۔ اس واقعے کا اہم کردار ڈاکٹر عثمان آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
1995ء میں جب کالعدم لشکر جھنگوی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت ملک اسحاق اپنے خلاف درج مقدمات کی وجہ سے مفرور تھا۔ رحیم یار خان کے علاقے سوائے خان کا رہائشی ملک اسحاق 6ستمبر 1985ء کو وجود میں آنے والی شجر خبیثہ (سپاہ صحابہ) کے بانی اور امریکی و سعودی پٹھو حق نواز جھنگوی کے ابتدائی دنوں کا ساتھی تھا۔ 1991ء میں جب ضیاء الرحمٰن فاروقی نے انجمن سپاہ صحابہ کا نام تبدیل کر کے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا تو ملک اسحاق ضلع رحیم یار خان کا سربراہ نامزد ہوا اور تنظیم کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بھی رہا۔ اپنے خلاف مقدمات کے باعث 1993ء میں روپوش ہوا۔ اسی مفروری کے دوران ریاض بسرا، اکرم لاہوری، اور غلام رسول شاہ سے مل کر لشکر جھنگوی بنائی، جو سپاہ صحابہ کے عسکری ونگ کے طور پر کام کرتی تھی، ان دہشتگردوں نے ملک بھر میں سینکڑوں بے گناہ شیعہ افراد کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا۔ لشکر جھنگوی کے قیام کے دو برس بعد ملک اسحاق کا قریبی ساتھی غلام رسول شاہ فیض آباد سے پکڑا گیا تو اس کی نشاندہی پر فیصل آباد کے علاقے دھوبی گھاٹ کی ایک مسجد سے ملک اسحاق کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
ملک اسحاق کے خلاف لگ بھگ 20 برسوں کے دوران 45 مقدمات درج ہوئے، لیکن 36 مقدمات میں وہ اپنے خلاف گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث بری ہو گیا۔ ان 45 مقدمات میں صرف 10 مقدمات ایسے تھے جن میں اسے براہ راست نامزد کیا گیا۔ ملک اسحاق کو اس کے اقبالی بیان پر ملتان میں درج ہونے والے مقدمے میں ڈیڑھ برس جبکہ بہاولپور میں درج مقدمے میں ساڑھے سات سال قید کی سزا ہوئی۔ ایک مقدمہ ڈسچارج ہو گیا جبکہ 6 مقدمات میں وہ ضمانت پر ہے۔ ملک اسحاق کی رہائی شاید دو برس قبل ہی ہو جاتی، جب پنجاب حکومت نے سپاہ صحابہ کے رہنماؤں سے اپنی حمایت کے بدلے ایک معاہدے کے تحت لشکر جھنگوی کے اسیر رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرانے کی حامی بھری، لیکن سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے میں اس کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے امکانات کی وجہ سے اس کی رہائی ممکن نہ ہوسکی۔ 11 جولائی 2011ء کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ناکافی شواہد پر اس کی ضمانت منظور کر لی۔
2008ء کے الیکشن کے بعد کے دنوں کی بات ہے، نواز شریف اور شہباز شریف پر الیکشن میں حصہ لینے کی پابندی اُٹھائے جانے کا کیس عدالت میں چل رہا تھا۔ شہباز شریف نے بھکر کے ایک حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے تھے۔ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ سے ایک دن قبل شہباز شریف کے مد مقابل امیدوار جو سپاہ صحابہ کا صوبائی نائب صدر تھا نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے اور شہباز شریف بلا مقابلہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ اس نشست سے منتخب ہو کر وہ وزیراعلٰی کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ سپاہ صحابہ جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے کے امیدوار کا الیکشن سے دستبردار ہونا یونہی نہ تھا، بلکہ یہ اقدام شریف برادران اور سپاہ صحابہ کے رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدے کا نتیجہ تھا۔ جب شہباز شریف وزیراعلٰی بن چکے تو کچھ عرصے کے بعد سپاہ صحابہ نے انہیں کیے ہوئے وعدے یا د دلانا شروع کر دیئے اور اپنے جلسوں میں علی الاعلان اس معاہدے سے انحراف کا ذکر کرتے ہوئے انہیں بیوفائی کے طعنے دینے لگے۔
مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کبیر والا میں ایک جلسے میں اپنی تقریر کے دوران بالآخر اس خاموش معاہدے سے پردہ اُٹھا دیا اور کہا کہ شہباز شریف نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنوں پر قائم مقدمات ختم کرا کر رہا کرائیں گے۔ یہ تقریر آن دی ریکارڈ موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل جھنگ کے ایک صوبائی حلقے کے ضمنی الیکشن سے قبل ن لیگ نے معاہدے کے تحت سپاہ صحابہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کے دو کارکن رہا کرا دیئے۔ چھ ماہ قبل لشکر جھنگوی کا ایک رہنما اور قتل کے بیسیوں کے مقدمات میں ملوث، غلام رسول شاہ کو بھی رہا کر دیا گیا اور بالآخر قتل و دہشت گردی کے سنگین مقدمات میں ملوث ملک اسحاق کو بھی ناکافی ثبوتوں کے باعث رہا کر دیا گیا۔
دراصل ان رہائیوں کے پیچھے پنجاب حکومت کی باقاعدہ پلاننگ موجود ہے۔ ملک اسحاق کے خلاف صرف قتل کے 45 مقدمات تھے، جن میں 36 میں گواہوں کی عدم دستیابی اور ناکافی ثبوتوں کے باعث بری ہو گیا۔ درحقیقت پنجاب حکومت کی طرف سے ان 36 کیسز کی پیروی ہی نہیں کی گئی کیونکہ ان تمام مقدمات میں مدعی پنجاب حکومت یا پولیس تھی اور شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے قانون وانصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سینکڑوں بے گناہوں کے قتل میں ملوث مجرم کو رہا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا، اگر حکمران ایسا کوئی پلان بنا چکے تھے تو پولیس کی کیا مجال جو ان مجرموں کے کیسز کی پیروی کرتی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتی۔ 
دوسرا سب سے اہم کام یہ ہوا کہ پراسکیوشن کا محکمہ وزارت قانون و انصاف کے انڈر آتا ہے اس پر ایسے شخص کو مسلط کر دیا جس کی سپاہ صحابہ سے ہمدردیاں ڈھکی چھپی نہیں، لہٰذا ایک منصوبے کے تحت رفتہ رفتہ غیر محسوس طریقے سے پنجاب حکومت اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے ملک کے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتی چلی گئی۔ وہ شخص جو عدالت اور میڈیا پر واشگاف الفاظ میں لشکر جھنگوی کی مذموم کارروائیوں کو تسلیم کر چکا تھا اور اس نے کہا تھا کہ میں نے 1997ء میں 102 شیعوں کا قتل کیا ہے، ایسے شخص کا یوں ایسے حالات میں رہا ہو جانا جب عدلیہ کے "تقدس" اور آزادی کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے، بہت معنی خیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اوپر سے لے کر نیچے تک سب عمالِ حکومت اس "کار خیر" میں برابر کے شریک ہیں۔
شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں سے کیا وعدہ ایفا کر دیا اور یوں اس ملک کے حکمرانوں نے جو انقلاب اور آئین کی پاسداری اور اصول پسندی و انصاف کے دعویدار ہیں نے اپنے ہاتھوں عدل و انصاف کا گلا گھونٹ دیا اور آئین و قانون کی زنجیروں میں جکڑے ایک بہت بڑے دہشت گرد کو رہا کر کے حق و انصاف کا قتل عام کیا اور ملکی قوانین کا کھلا مذاق اڑاتے ہوئے ملک کی دہشت و خوف سے مکدر فضا میں مزید اضافہ کرنے کیلئے رہا کرا دیا۔ وقت اور تاریخ شہباز شریف کو ملک کے آئین و قانون اور ریاست کے مفادات سے غداری کے بارے میں اپنا فیصلہ ضرور سنائے گی، چہ جائیکہ شہباز شریف اور اس کے حواری شاید اس فیصلے کو سننے کی تاب نہ بھی رکھتے ہوں۔
پاکستان کی سیاست میں ایجنسیوں کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے، ممکن ہے کہ صرف شریف برادران اور کالعدم تنظیم کے درمیان معاہدہ ہی ملک اسحاق کی رہائی کا باعث نہ ہو، بلکہ کچھ خفیہ ہاتھوں نے بھی اپنے مفادات کے لئے اسی معاہدے سے استفادہ کرتے ہوئے اس رہائی کو ممکن بنایا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران جتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں، بہر حال ایجنسیوں سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتے اور خفیہ ایجنسیوں کی اجازت کے بغیر اتنے بڑے دہشت گرد کی رہائی بعید از امکان ہے۔ یہ بات سوال طلب ہے کہ ایجنسیوں اور کالعدم تنظیم کے راہنماؤں کے درمیان کیا ڈیل ہوئی ہے۔ ایک فیکٹر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوے کی دہائی کی کشیدہ فرقہ وارانہ صورتحال کو پھر سے ملکی منظر نامے پر سٹیج کیا جائے، تاکہ لڑو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا جا سکے۔ دوسرا مقصد حکومت، خفیہ اداروں سے برسرِ پیکار دہشت گردوں کو ایک بار پھر پرانے میدان جنگ کی طرف متوجہ کرنا یا ہانکنا بھی ہو سکتا ہے۔ تیسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں میں نفوذ کر جانے والے بعض نام نہاد اسلامی ممالک کے تنخواہ دار ایجنٹ ان ممالک کی پاکستان میں روز بروز گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کیلئے ایک نیا ایشو Develope کرنا چاہتے ہیں، تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا پٹھو بننے سے مسلمان عوام کی نظر میں گرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نکلا جا سکے۔ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے پیشگی اقدامات کے تناظر میں اس رہائی کی ایک وجہ بھی نظر آتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی کشیدہ فضا میں ایک دہشت گرد تنظیم کے رہنما کو رہا کرنا ملکی مفادات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اگر مستقبل میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا جن دوبارہ برآمد ہوا، تو اس صورتحال کی ساری ذمہ داری شریف برادران بالخصوص شہباز شریف، عدلیہ اور خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہو گی۔ خداوند تبارک و تعالٰی سے دعا ہے کہ ملک کو اس دشمن کی سازشوں سے بچا لے۔
خبر کا کوڈ : 86313
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش