QR CodeQR Code

یوم القدس کی اہمیت اور آج کا مسلمان

17 May 2020 09:43

اسلام ٹائمز: جو بات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے، وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دیکر اس کیلئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر انکا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائی کمزور رہا ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے میدان عمل میں آجائے، یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کیلئے سراپا احتجاج بن جائیں۔


تحریر: شبیر احمد شگری

اس سال کا یوم القدس ایک عظیم شہادت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ شہید قدس قاسم سلیمانی کی عظیم شہادت نے اس مرتبہ نہ صرف پوری دنیا کی امت مسلمہ کو بیدار کر دیا ہے بلکہ مسئلہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت دشمن کی بدحواسی اور بزدلانہ کارروائی ہے، جس سے قدس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شہید قدس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قدس کے پودے کو اپنے خون سے سینچا۔ ان شاء اللہ اب مسئلہ قدس کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہی ہوگا اور اس مسئلے کی اہمیت کو کم کرنے کی ہر کوشش کو شہید قدس ناکام بنا گئے ہیں۔ اگر ہم آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار کے بہت زیادہ ذمہ دار خود ہم مسلمان ہیں، کیونکہ اگر ہم مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق ہوتا تو دشمن ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ کہیں نااتفاقی، کہیں خوف، کہیں ذاتی مفاد اور کہیں کاسہ لیسی نے ہمیں دشمن کی پابندیوں کی زنجیروں میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اگر ذرا سی بھی حرکت کریں تو ہمارے زخموں سے خون رسنے لگتا ہے۔ اس پر بھی ستم یہ ہے کہ مسلمان قوم پر ہونیوالے مظالم پر آواز اٹھانے کی بجائے خود مسلمان ہی مسلمانوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتے۔

مثال کے طور پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اسلامی اتحادی افواج بننے کے بعد کسی مسلمان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتا، لیکن المیہ یہ ہے کہ خادمین حرمین شریفین ان افواج کی مدد سے یمن کے نہتے مسلمانوں اور بچوں پر چڑھائی کر رہے ہیں اور جب کشمیر کے مسلمانوں کو حمایت کی ضرورت تھی تو بظاہر تو پاکستان کے دوست بنے ہوتے ہیں، لیکن وقت آنے پر کشمیر کے مسلمانوں سے ہمدردی کی بجائے پاکستان کو چھوڑ کر انڈیا کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ جب مسلمانوں کے اعمال ایسے ہو جائیں تو پھر ہم اللہ سے کوئی توقع رکھ سکتے ہیں۔ لیکن دیکھیں اللہ نے بھی سو موٹو لے لیا ہے کہ فلسطین، کشمیر، یمن، شام، عراق، برما اور دوسرے مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر تم چپ تھے۔ ان مسلمانوں پر لگنے والے لاک ڈاون پر تم خاموش تھے تو کیوں نہ پوری دنیا میں لاک ڈاون لگا دیا جائے، اور اس طرح پوری دنیا کی آزادی خدا کی ایک چھوٹی سی مخلوق کی وجہ سے سلب کرلی گئی۔ یہ اللہ کی ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے کہ خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مقدس مقامات مسلمانوں پر آج بند کر دیئے گئے۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ کرونا تو چھوٹا دھماکہ ہے، اب تو بڑا دھماکہ ہونے جا رہا ہے۔ جس کے تحت ساری دنیا کو ویکسین کے نام پر قابو کر لیا جائے گا۔ لوگوں کے جسم میں چپ لگا دی جائے گی، جس سے اسے کنٹرول کیا جا سکے گا اور اس کے بغیر کوئی بھی ہوائی سفر یا کوئی دوسری سہولت حاصل نہیں کرسکے گا۔

ان سب چیزوں سے آج کا مسلمان بچ سکتا ہے، اگر اس کا ایمان مکمل طور پر اللہ کی ذات پر ہو۔ اس کی بہترین مثال آج کا ایران ہے، واحد اسلامی ملک ہے جو پوری دنیا کی دشمنی اور پابندیوں کے باوجود ڈٹا ہوا ہے۔ جس نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود آج کرونا پر قابو پا لیا ہے۔ ان مشکل حالات میں خلا میں سٹلائیٹ بھیجنے والا پہلا اسلامی ملک بن چکا ہے۔ اگر ایران کو دیکھیں تو اس کا رابطہ دنیا کیساتھ ایسے ہے کہ نہ کوئی کریڈٹ کارڈ وہاں استعمال ہوسکتا ہے، نہ فیس بک نہ یوٹیوب۔ ایران نے نہ صرف یورپی ٹیکنالوجی کو واپس ان کے منہ پر دے مارا ہے، جس سے وہ دنیا پر اپنا راج چلاتے ہیں بلکہ خود اپنی ٹیکنالوجی ان کے مقابلے میں تو کیا ان سے بڑھا چکا ہے۔ جس کی مثال شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بدلے کے موقع پر ہمارے سامنے آچکی ہے۔ جس طرح عراق میں نام نہاد سپر پاور کے امریکی اڈوں پر لگے جدید ترین آلات کو پتہ بھی نہیں چل سکا کہ ان پر حملہ ہو رہا ہے اور یہ سب جذبہ ایمانی اور صحیح معنوں میں اسلامی حکومت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ کاش ہمارے تمام اسلامی ممالک اس طرح کے ہو جائیں اور دشمنان اسلام کا قلع قمع ہو جائے۔

مسلمانوں کو جتنا متحد ہونے کی آج ضرورت تھی، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لئے تمام عالم اسلام کو مل کر اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، اگر کوئی غریب بھوک کاٹ رہا ہے تو کسی امیر نے اس کا حق غصب کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں پر کہیں ظلم ہو رہا ہو تو اس کے قصور وار ہم مسلمان تو نہیں۔؟ یاد رکھیں دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ وہ تمام مظلومین ہماری امید میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہم جو آزاد ہیں اور آزادی کی قدر کو نہیں جانتے، ہوش میں آئیں اور ان مظلومین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن اگر ہم ہی خواب غفلت میں پڑے رہیں تو یاد رکھیں کہ یہ آگ ہمارے دروازے تک بھی پہنچ جائے گی اور خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ پھر ہمارے جاگنے کا بھی فائدہ نہ ہو۔ مسئلہ فلسطین پر یہ سمجھ کر خاموش نہ بیٹھیں کہ اسرائیل نے صرف یہودیوں کو آباد کرنے کیلئے یہاں قبضہ کیا ہے۔ اگر ہم ہوش کے ناخن لیں تو آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم ہر طرح سے ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر آپ صرف روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی فہرست بنائیں تو سو سے زائد یہودی مصنوعات آپ کے روزمرہ استعمال میں آپ کے گھر پر موجود ہیں۔

اگر ہم مسئلہ فلسطین کو ہی دیکھیں تو خصوصاً رمضان میں یوم القدس کی وجہ سے یہ مسئلہ دنیا میں ایک مرتبہ تازہ ہوکر ابھرتا ہے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اس یوم القدس کیلئے بھی ہم انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی ؒ کے مرہون منت ہیں، جن کے فرمان کے مطابق ہر سال رمضان میں جمعۃ الوداع کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ یوں تو سارا سال ہی فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جاتا ہے۔ لیکن ہر رمضان میں مسلمانوں کی غیرت کو للکارتے ہوئے غاصب صیہونی، فلسطینی نہتے مسلمانوں اور بچوں پر ظلم کرنے میں تیزی کیساتھ حرکت میں آتے ہیں۔ دنیا بھر میں قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے یوم القدس منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایران، ہندوستان، لبنان، عراق، بحرین اور فلسطین سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں القدس ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ جن میں کروڑوں افراد شرکت کرتے ہیں، امریکہ، اسرائیل اور عالمی استکبار کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں، لیکن اس سال لاک ڈاون کی وجہ سے شاید یہ اجتماعات منعقد نہ ہوسکیں، لیکن ہم سب کو اپنی تحاریر، میڈیا، سوشل میڈیا اور اپنے اردگرد مسئلہ فلسطین کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔

یوم القدس عالم اسلام کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ ارض فلسطین انبیاء کی سرزمین بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اوّل اس وقت غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جس نے گذشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کر رکھا ہے۔ ارض فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے، اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے، جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اور اس کے ہم نواؤں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگا دیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گیا کہ فلسطینیوں کو  اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا۔ فلسطین کا مسئلہ شروع میں تو ایک علاقائی مسئلہ رہا، لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ ادراک ہونے لگا کہ دشمن صرف زمین اور علاقائی مسئلہ سمجھ کر فلسطین پر قابض نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کے پیچھے دینی اور نظریاتی مسائل ہیں۔

اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ نے فلسطینی عوام اور عالم اسلام کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا کہ قدس کا مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ کسی ایک ملک سے مخصوص نہیں یا یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ گذشتہ، موجود اور آنیوالے مومنین اور موحدین کا مسئلہ ہے، جس دن مسجد الاقصیٰ کی بنیاد اس زمین پر رکھی گئی ہے، اسی دن سے یہ سیارہ اس ہستی میں گردش کر رہا ہے۔ مسلمانوں کیلئے کتنا دردناک ہے یہ منظر کہ وہ مادی اور معنوی امکانات کے باوجود بھی اس جسارت کو دیکھ رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے اسلامی ممالک دنیا کی سپر طاقتوں کی رگ حیات ہاتھ میں رکھ کر ان سب مناظر کا تماشائی بنے ہوئے ہیں اور کچھ اوباش اس طرح مقدسات کی توہین کر رہے ہیں۔ امریکا جیسے فاسد اور ظالم نے عالم اسلام کے سامنے اپنے کچھ ظالم احباب کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قبلہ اول کو غصب کر رکھا ہے اور عالم اسلام کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور یہ سب دیکھنے کے بعدبھی اسلامی ممالک کی خاموشی افسوسناک ہے۔

1948ء سے جب فلسطین پر قبضہ کیا گیا، یہ مسئلہ ابتدا سے ہی بہت حساسیت کے ساتھ موجود ہے۔ خود فلسطینیوں نے جب جنگ کرامہ میں صہیونیوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اکتوبر میں کسی ایک دن کو یوم فلسطین کے طور پر مطرح کیا تھا، لیکن اس کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒنے اپنے تمام مبارزات و جدوجہد کی ابتدا سے ہی فلسطین کی آزادی اور اس پر قبضے کو ناجائز قرار دیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کیساتھ رابطہ منقطع کرتے ہوئے اس کے سفارتخانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا گیا. جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کیا تو حضرت امام خمینی نے تیرہ رمضان المبارک کو درج ذیل پیغام کے ذریعے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر اعلان فرمایا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم! میں نے عرصہ دراز سے،  تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے کی طرف متوجہ کیا ہے، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر حملات کو شدید کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کیلئے، مسلسل ان کے گھروں پر بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کیلئے ایک دوسرے کیساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہوسکتا ہے، اس کو "یوم القدس" کے عنوان سے منتخب کرتے ہوئے، کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کیساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں. اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو اہل کفر پر کامیابی عطا فرمائے۔

بلاشبہ یہ ایک عظیم مسلمان لیڈر کی ایک طاقتور دعوت تھی۔ امام خمینی ؒ کی اس آواز پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے لبیک کہا اور اب تک ہر رمضان میں بالخصوص تمام مسلمانوں کے اندر ایک جذبہ نئے ولولے کے ساتھ امڈ آتا ہے اور اسی طرح جمعۃ الوداع کو یوم القدس منایا جاتا ہے اور ان شاء اللہ قدس کی آزادی تک منایا جاتا رہے گا۔ 80 اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں اس دن مظاہرے ہوتے ہیں، ان ممالک میں ملائیشیاء، بھارت، سنگاپور، انڈونیشیاء، ترکی، امریکہ، کینیڈا، ناروے، آذربائیجان، سوڈان، برطانیہ، بحرین، بوسنیا اور ہرزگوئنا، تیونس، پاکستان، آسٹریلیا، جرمنی، رومانیہ، کویت، ہسپانیہ، جنوبی افریقا، سوئیڈن، وینزوئلا، البانیہ، یمن اور یونان شامل ہیں۔ مختلف مغربی خبررساں ایجنسیاں عام طور پر چپ سادھ لیتی ہیں یا پھر ہزاروں افراد یا دسیوں ہزار افراد جیسی عبارات استعمال کرتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ مظاہرے میں شریک عوام کی تعداد کو کم کرکے بتائیں۔

"یوم القدس عالمی ہے اور یہ صرف قدس سے متعلق نہیں۔ یہ مستضعفین کا مستکبرین کیساتھ مقابلے کا دن ہے، یہ ان اقوام کے مقابلے کا دن ہے، جو امریکہ اور غیر امریکہ کے ظلم تلے دبے ہوئی تھیں، ایسا دن ہے، جب مستضعفین کو چاہیئے کہ مستکبرین کیخلاف پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان کو ذلیل و خوار کریں۔"یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں، یہ اسلام کا دن ہے، یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔ ایسا دن ہے جب اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا تمام ممالک میں بلند کیا جانا چاہیئے۔ ایسا دن ہے، جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہیئے کہ اب اسلامی ممالک میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ایسا دن ہے، جب ہمیں چاہیئے اپنی تمام طاقتوں کو یکجا کریں اور مسلمانوں کو اپنے خول سے نکلنا چاہیئے اور اپنی تمام طاقت و توانائی کیساتھ جانب اور بیگانوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ "یوم القدس ایسا دن ہے، جب تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جانی چاہیئے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئے گا، یوم القدس، اسلام کی حیات کا دن ہے۔"یوم القدس ایک اسلامی دن ہے اور یہ ایک عام اسلامی رضاکاروں کا دن ہے۔ ہمیں یہ بھی امید رکھنی چاہیئے کہ یہ مقدمہ بنے گا، ایک "حزب مستضعفین" کیلئے اور "اگر امت مسلمہ اس مسئلہ سے غافل ہوئی، اگر علمائے اسلام نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اٹھ نہ کھڑے ہوئے، اگر واقعی اصل اسلام جو تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد و تحرک کا باعث ہے اور مسلمان اقوام و اسلامی ممالک کی سیادت و استقلال کا ضامن ہے، اگر بیگانوں اور سامراجی سیاہ پردوں کے اندر بھڑکنے لگے تو اسلامی سماجوں کیلئے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور برے دنوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔

اس لئے ہمیں فلسطینی مظلوم عوام کی ہر طرح سے حمایت اور مدد کرنی چاہیئے۔
"اہم چیز یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو فلسطین کے مسئلہ سے غفلت نہیں کرنی چاہیئے۔ امریکہ، استکبار اور صہیونیوں کے حامیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان فلسطین کو بھول جائیں، لیکن امت مسلمہ کو چاہیئے کہ فلسطین کے مسئلہ کو نہ بھولیں۔"یوم القدس کو منانا چاہیئے اور اس کا احترام کرنا ہر مسمان پر فرض ہے۔ وہ لوگ جو فلسطینی زندانوں میں محبوس ہیں، وہ آپ کی اس صادقانہ نیت اور عزم سے قوت کا احساس کرتے ہیں اور مقاومت کرتے ہیں۔ وہ مبارز شخص جو مقبوضہ فلسطین کے زندانوں میں ہے، اس کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہیئے، تاکہ وہ کھڑا رہ سکے۔ وہ خواتین اور مرد جو بیت المقدس اور غزہ کی پٹی اور اسی طرح فلسطین کے دوسرے شہروں کی گلی کوچوں میں صہیونی اوباش و غنڈوں کے ہاتھوں پٹتے ہیں، ان کو یہ احساس ملنا چاہیئے کہ آپ ان کی حمایت کر رہے ہیں، تاکہ وہ مقاومت کرسکیں۔ اسی طرح حکومتوں کے بھی اپنی خاص فرائض ہیں۔

ہر فلسطینی جوان جو خون میں نہلا دیا جاتا ہے یا ہر فلسطینی گھرانہ جو بے سرپرست رہ جاتا ہے اور ان کا خاندان بکھر جاتا ہے، اس میں امریکی حکومت اور اس کے صدر کا بلا واسطہ طور پر ہاتھ ہے اور وہ اس جرم میں شریک ہے۔ اگر کوئی بھی شخص مسلمانوں کے کسی گروہ سے ہمدردی کا اظہار کرے اور خدا و رسول (ص) کے نام پر انسانیت کی بھلائی کی بات کرے تو اس کے دعوے کی تصدیق کیلئے معیار مسئلہ فلسطین پر اس کا قول و عمل ہے۔ اسرائیل ظالموں کی شہ رگ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امریکا میں حکومت کیلئے الیکشن جیتنے کا دارومدار مختلف کاروباری اداروں کی مالی معاونت پر ہے، جو اس شرط سے جڑی ہوتی ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد انکے کاروبار اور مفاد کا دھیان رکھا جائے گا، چاہے اس کام کیلئے امریکی عوام کو دہشتگردی سے ڈرا کر ان کے بیٹے اور بھائی قتل گاہ کیوں نہ بھیجنا پڑیں۔ آج تک سب سے زیادہ جنگیں امریکی فوج کو لڑنی پڑی ہیں، یہی مفادات ہیں، جن کی خاطر دنیا بھر میں مداخلت کرکے غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے، جو شخص بھی مفاد پرستی پر لعنت بھیجے اور رضاکاری کا دعویٰ کرے، اس سے فلسطین کے بارے میں پوچھئے۔ اگر وہ اسرائیل کا حامی ہے، تو یقیناً اپنے مفاد کا پجاری بھی فلسطین میں ظلم و ستم، ناانصافی، دہشت و بربریت اور درندگی کے تمام لفظ اپنی ہیت ترکیبی اور معانی و مطالب کے حوالے سے چھوٹے پڑ چکے ہیں۔ کوئی بھی لفظ اسرائیل کی ننگی جارحیت کی صحیح معنوں میں عکاسی نہیں کر پا رہا۔

جو بات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے، وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اس کیلئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائی کمزور رہا ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے میدان عمل میں آجائے، یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کیلئے سراپا احتجاج بن جائیں۔ ایک طرف تو مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف درد اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک مسلمانوں کے ابدی اور دائمی دشمن اسرائیل کے ساتھ گہری دوستی اور تعلقات قائم کر رہے ہیں اور اسرائیل کے شوم منصوبوں کو عرب ممالک میں نافذ کرکے اسرائیل اور امریکہ سے شاباش حاصل کر رہے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں مسلمانوں اور عالم اسلام کو گزند اور نقصان پہنچانے پر کمربستہ ہیں۔ صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے مزارات کو انہوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور جنت البقیع سے لیکر شام و عراق تک شہید کر دیا اور اولیاء و صحابہ کرام کے باقی ماندہ روضوں کو بھی شہید کرنے کی ناکام پالیسی اور سازش پر گامزن ہیں۔ مسلمانوں کیساتھ عرب حکمرانوں کی خیانت طشت از بام ہوگئی ہے۔ واضح ہوگیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی عرب ممالک پر امریکہ اور اسراییلی مزدوروں کا قبضہ ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کی نیابت میں اسلامی ممالک پر جنگ مسلط کر رہے ہیں اور علاقہ میں دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یقین جانیں انہیں قبلہ اول کی کیا فکر ہوسکتی ہے، جو فخر سے خود کو حرمین شریفین کے خادم کہلواتے ہیں، لیکن اسی آڑ میں اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے علاوہ حرمین شریفین کو اپنی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور کسی بھی قسم کے ایسے فیصلے یا سازش کو عملی جامہ نہیں پہنانے دیا جائے گا کہ جس میں فلسطین میں دو ریاستی حل یا فلسطینیوں کے حقوق پائمال ہوں۔ مسلمانوں کی جدوجہد یہودیوں کیخلاف نہیں بلکہ ہم صیہونزم کیخلاف ہیں کہ جو نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقوام کو آگاہ کریں اور بتائیں کہ فلسطین کے مسئلہ کو مرکزیت حاصل ہے اور تمام تر مسائل کی جڑ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل ہے۔ امریکہ مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، تاہم مسلمان متحد رہیں اور امریکی اور اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کریں اور مسئلہ فلسطین کو فراموش نہ ہونے دیں، امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ فلسطین کی آزادی اور جدوجہد کیلئے اٹھنے والی تمام آوازوں کو دبا دیا جائے اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کیا جائے، تاہم ہمیں ہر صورت مسئلہ فلسطین کیلئے اپنی جدوجہد کو اولین ترجیح میں جاری رکھنا ہوگا اور امت کو عالمی استعماری قوتوں کے ناپاک عزائم کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ فلسطین کا مسئلہ کسی ایک قوم، قبیلہ، رنگ و نسل یا مذہب و مسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے اور اسلام انسانیت کو نجات بخشنے والا مذہب ہے، اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہمیں تمام تر مسائل اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کے مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔


خبر کا کوڈ: 863159

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/863159/یوم-القدس-کی-اہمیت-اور-ا-ج-کا-مسلمان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org