1
Tuesday 19 May 2020 03:31

امریکہ نئے سیاسی بحران کی لپیٹ میں

امریکہ نئے سیاسی بحران کی لپیٹ میں
تحریر: سید نعمت اللہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً دو ماہ پہلے کرونا وائرس کے پھیلاو کا سدباب کرنے کیلئے ملک میں قومی سطح پر ایمرجنسی صورتحال کا اعلان کیا تھا اور تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوراً صحت اور وبا کو کنٹرول کرنے کے مراکز تشکیل دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام بہت حد تک اپنے خلاف انجام پانے والی اس تنقید کے ردعمل کا نتیجہ تھا جس میں ان پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ انہوں نے کرونا وائرس سے درپیش خطرے کو صحیح طور پر درک نہیں کیا اور ملک بھر میں کووڈ 19 وبا سے متاثرہ افراد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ان کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ حتی وائٹ ہاوس کے امور صحت کے مشیر اینتھونی فاوچی نے بھی اس تنقید کی حمایت کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر اور لاک ڈاون جلدی شروع ہو جاتا تو زیادہ تعداد افراد کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ بہرحال، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ نہ صرف کرونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح میں کمی کا باعث نہ بن سکا بلکہ ایک اور بحران ایجاد ہونے کا سبب بن گیا۔

یہ نیا بحران سیاسی نوعیت کا ہے اور اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ 10 امریکی سینیٹر کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ یہ پریشانی کرونا وائرس اور امریکہ میں اس کے پھیلاو سے متعلق نہیں بلکہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کی ذات سے مربوط ہے۔ اس پریشانی کا منشا وہ تصور ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں ایمرجنسی صورتحال کے دوران اپنے اختیارات سے متعلق پایا جاتا ہے۔ درحقیقت خطرے کی گھنٹی اسی وقت بج چکی تھی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: "مجھے بہت سے ایسے اقدامات انجام دینے کا حق حاصل ہے جن کے بارے میں عوام کچھ نہیں جانتے۔" ان کی یہ بات اس وقت پریشان کن دکھائی نہیں دیتی تھی کیونکہ انہوں نے ایسٹافورڈ قانون کا ذکر کیا تھا جو ماضی میں امریکہ کے سابق صدور بھی ایمرجنسی صورتحال میں لاگو کرتے آئے تھے۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 2017ء میں مرکزی ریاستوں میں سیلاب کے دوران یا 2018ء میں ریاست کیلی فورنیا میں آتش زدگی کے دوران اس قانون کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے اس قانون کے تحت متاثرہ خاندانوں کی مدد کیلئے کانگریس سے اجازت لئے بغیر خزانے سے ضروری رقم نکلوائی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایمرجنسی صورتحال میں اپنے اختیارات بیان کرنے کے بارے میں سیاسی حلقوں میں پریشانی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب انہوں نے ریاستوں سے لاک ڈاون ختم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن بعض ریاستوں کے ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ گورنرز نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے جواب میں کہا کہ ایمرجنسی صورتحال میں انہیں یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ان ریاستوں میں لاک ڈاون ختم کرنے کا حکم جاری کر سکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان مذکورہ بالا ریاستوں کے گورنرز کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننا شروع ہو گیا اور نیویارک کے گورنر اینڈرو کومو نے یہاں تک کہہ دیا کہ: "اس ملک میں ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔" اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً پسپائی اختیار کر لی اور کہا کہ لاک ڈاون کے خاتمے سے متعلق حتمی فیصلہ ریاستوں کے گورنر ہی کریں گے لیکن ریاستی حکمرانوں کے ساتھ ان کا ٹکراو ملک کے اکثر سیاسی حلقوں میں بے چینی اور شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنا ہے۔ امریکہ کے دس سینیٹرز نے اس بارے میں دو علیحدہ خط لکھے ہیں۔ ان خطوط میں PEAD یا ایمرجنسی صورتحال میں صدارتی اقدامات کی دستاویز سمیت وائٹ ہاوس کی بعض دیگر دستاویزات تک رسائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

وہ اس طرح یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایمرجنسی صورتحال نافذ کر کے اپنے اختیارات کی وسعت اور دائرہ کار کے بارے میں کیا تصور قائم کئے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ سال امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کئے جانے کے تنازعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں ایمرجنسی صورتحال میں اپنے اختیارات کے بارے میں جو تصور پایا جاتا ہے وہ ان کے قانونی اختیارات سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس تنازعہ میں بھی یہ مسئلہ کانگریس اور حتی فیڈرل کورٹس میں پہنچ گیا تھا۔ آزاد حیثیت رکھنے والے سینیٹر اینگاس کنگ نے اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس خودساختہ تصور کی روشنی میں نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن کے بارے میں کوئی "شیطنت آمیز اقدام" انجام دے دیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن میں اپنی کامیابی خطرے میں پڑتا دیکھ کر ایمرجنسی صورتحال کے بہانے صدارتی الیکشن موخر کرنے کی کوشش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ گھمبیر حالات سے روبرو ہے۔ ایک طرف کرونا وائرس سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ دوسری طرف اسٹاک ایکسچینج کئی ہفتوں سے گراوٹ کا شکار ہے۔ لہذا حکومتی ایوانوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے اختیارات غلط استعمال کرنے سے متعلق تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 863507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش