0
Tuesday 19 May 2020 11:10

امام خمینی اور رمضان المبارک(1)

امام خمینی اور رمضان المبارک(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امام خمینی قرآن و حدیث اور آئمہ اطہار کی روایات کی روشنی میں رمضان المبارک کو ضیافت الہیٰ اور دعوت الہیٰ سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ اس مہینے کو خدا کے ہاں مہمان بن کر دنیاوی لذتوں سے دوری کا نام دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں "ضیافت یعنی دعوت کیا ہے، خدا کی دعوت سے مراد یہ ہے کہ جو دنیاوی شہوات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ ضیافت الہیٰ کا مرتبہ یہ ہے کہ جو افراد بھی اس دعوت میں مدعو ہیں، اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ اس دعوت میں شہوات سے چشم پوشی ہے اور مادی لذات کو ترک کرنا ہے، اس دعوت میں انسانی قلب یعنی روح کو اس عظیم عبادت کی طرف مائل کرنا ہے۔ یہ وہ دعوت ہے، جو پورے عالم میں وجود رکھتی ہے اور اس نے انجام پانا ہے۔ شہوات دو طرح کی ہیں، جسمانی اور خیالی، عالم مثال میں جسمانی شہوت ہے اور عالم مثال سے بالا شہوت خیالی ہے اور شہوت خیالی سے دوری یعنی عقلانی اور روحانی حوالے سے اپنے آپ کو شہوت سے دور کرنا ہے۔

جسمانی شہوت کو ترک کرنا آسان ہے، لیکن شہوت نفسانی اس سے بڑھ کر ہے۔ ضیافت اللہ یعنی شہوت جسمانی و شہوت نفسانی سے چھٹکارا۔ خدا کی دعوت میں شرکت کے لیے ان شہوتوں کو ترک کرنا ہے، کیونکہ دیکھنا یہ ہے کہ انسان کو کس نے دعوت دی ہے۔ امام خمینی ضیافت الہیٰ میں شرکت کے لیے نفسانی خواہشات سے پرہیز کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں جس کے اندر معمولی سی بھی جسمانی و نفسانی شہوت ہوگی، وہ ضیافت الہیٰ میں شریک نہیں ہوسکتا اور اگر وہ اس دعوت میں پہنچ بھی جائے تو اس سے استفادہ نہیں کرسکے گا۔ آج دنیا میں جو مشکلات و مصائب دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ضیافت الہیٰ سے استفادہ نہیں ہوسکا ہے۔ اول تو اس دعوت الہیٰ میں داخل نہیں ہوسکے اور اگر داخل بھی ہوئے ہیں تو اس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

جو انسان اس دعوت میں قلبی طور پر شریک ہوتا ہے، وہ شیطانی قوتوں کے مقابلے میں اپنے قلب و ذہن کو مستحکم کرسکتا ہے۔ امام خمینی فرماتے ہیں کہ الہیٰ دعوت اور انسانی دعوت میں یہ فرق ہے کہ جب کوئی انسان دعوت دیتا ہے تو وہ مہمان کے لیے کھانے پینے کے لیے اشیاء مہیا کرتا ہے، لیکن خدوند عالم کی دعوت میں شرکت کے لیے روزہ ضروری ہے اور اس میں شریک ہونے والوں کو مائدہ آسمانی میں سے عطا ہوتا ہے۔ دعوت الہیٰ میں شرکت کے لیے مہمان کا روزہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو اس دعوت الہیٰ کے ذریعے شب قدر کے لیے آمادہ و تیار کرے۔ امام خمینی تلاوت قرآن کریم اور شعبان و رمضان کی ٘مخصوص دعائوں اور مناجات کو فضائل رمضان سے استفادہ کا بہترین سلیقہ قرار دیتے ہیں۔ آپ اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ جو دعائیں شعبان و رمضان میں وار ہوئی ہیں، یہ ہماری رہنمائی ہدایت کے لیے ہیں۔ اس میں جو عظیم مطالب بیان کیے گئے ہیں، ان کی مثال نہیں ملتی، ان پر توجہ کی ضرورت ہے، یہ انسان میں حرکت پیدا کرتی ہیں۔

امام خمینی اس فرد کے لیے عید فطر کو عید سعید سمجھتے ہیں، جس نے دعوت الہیٰ سے بھرپور استفادہ کیا ہو اور اپنی باطنی اصلاح کی ہے۔ آپ عید سعید کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امید ہے کہ یہ عید تمام مسلمانوں کے لیے حقیقی معانی میں عید ثابت ہو۔ حقیقی عید یہ ہے کہ انسان خدا کی رضا و خوشنودی حاصل کرے اور اپنے باطن کی اصلاح کرے۔ جو چیزیں اس مادی دنیا سے مربوط ہیں، جلد ختم ہونے والی ہیں اور اس دنیا کی خوشی و غم، کامیابی و ناکامی، شکست و فتح سب عارضی ہیں، ان کی مدت چند روزہ ہے۔ ہمارے اور آپ کے لیے جو باقی رہ جائے گا، وہ ہماری باطنی اصلاح ہے، ہر چیز خداوند عالم کی قدرت میں ہے۔

یقین کر لو کہ خدا حاضر و ناظر ہے۔ یقین جان لو کہ سب اس کے ہاتھ میں ہے، ہم کچھ بھی نہیں ہیں، ہم تو خداوند عالم کا شکر ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ امام خمینی تزکیہ نفس اور باطنی اصلاح کو روزہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان المبارک میں ہم اصلاح کے محتاح ہیں، ہمیں تزکیہ نفس کی ضرورت ہے۔ عظیم انبیاء کو بھی اس کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنی ضرورت کا ادراک کر لیا تھا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے، چونکہ ہم ایک حجاب میں ہیں، اس لیے نہیں سمجھ سکے اور ہم نے اپنی ذمہ داری اور فریضہ پر عمل نہیں کیا۔ رمضان المبارک کے مبارک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے فریضے پر عمل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 863563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش