1
0
Tuesday 19 May 2020 18:51

نماز تراویح، سنت یا بدعت؟

نماز تراویح، سنت یا بدعت؟
تحریر: ساجد مطہری

بحث کے آغاز میں اس مطلب کی وضاحت ضروری ہے کہ اہل سنت کی طرح شیعوں کے نزدیک بھی ماہ رمضان کی مستحبی نمازیں ہیں، لیکن وہ انہیں الگ اور فرادیٰ پڑھتے ہیں، ہماری بحث یہ ہے کہ آیا اہل سنت کے مروجہ طریقے کے مطابق نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔؟
بدعت کا مفہوم
بدعت کا حکم بیان کرنے سے پہلے بدعت کا معنیٰ اور مفہوم واضح کرتے ہیں۔ دین اسلام کامل ہونے کے بعد کسی نئی چیز اور نئے حکم کو دین میں شامل کرنا بدعت کہلاتا ہے۔[1] ابن حزم کہتے ہیں: ہر نئی چیز جو قران مجید اور سنت رسول (ص) میں موجود نہ ہو، بدعت شمار ہوتی ہے۔[2]

ذیل میں نماز تراویح کے بدعت ہونے پر دلائل پیش کرتے ہیں۔
۱۔ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں نماز تراویح رائج نہیں تھی
صحیح بخاری میں آیا ہے کہ نبی پاک (ص) مسجد میں نماز مستحبی بجا لانے میں مشغول تھے کہ صحابہ کرام جمع ہوئے اور انہوں نے رسول اکرم(ص) کی اقتداء میں نماز تراویح پڑھنے پر اصرار کیا تو آنحضرت نے بڑی سختی سے انہیں اس عمل سے  منع  فرمایا۔[3]
2۔ خلیفہ دوئم کا نماز تراویح کی بدعت ہونے کا اعتراف
خلیفہ دوئم کے دور خلافت تک تمام مستحبی نمازیں فرادیٰ پڑھی جاتی تھیں، لیکن جب حضرت عمر فارق مسند خلافت پر بیٹھے تو انہوں نے ابی بن کعب کی امامت میں مسجد نبوی کی تمام نمازیوں کو اکٹھا کرکے نماز باجماعت قائم کی اور نمازیوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’مستحب نمازوں کو اس طرح (باجماعت) کے ساتھ پڑھنا کتنی خوبصورت بدعت ہے۔‘‘[4] اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین علامہ سیوطی نے تراویح کو خلیفہ دوئم کی بدعتوں میں سے شمار کیا ہے۔[5]

3۔  روایات میں نماز تراویح کا ذکر موجود نہیں ہے   
اگر آحادیث میں ’’تروایح‘‘ کے عنوان سے روایات موجود ہوتیں تو وہاں یہ مستقل عنوان کے ساتھ ذکر ہوتیں، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں ’’تراویح‘‘ کے عنوان سے کوئی باب موجود نہیں ہے۔
مستحبی نمازوں کا جماعت کیساتھ پڑھنا مشروعیت نہیں رکھتا
نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، حالانکہ اس سلسلے میں رسول اکرم (ص) کی حدیث مبارک موجود ہے کہ نماز استسقاء (دلیل خاص کی وجہ سے) کے علاوہ مستحب نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔[6]
نتیجہ: جب کوئی عبادی عمل رسول اکرم (ص) کے زمانے تک مسلمانوں میں رائج نہ ہو تو بھلا کیسے اسے ذاتی صوابدید کی بنا پر دین میں شامل کیا جا سکتا ہے؟! اور جب کسی عمل کی مشروعیت ہی معلوم نہ ہو تو اس کے ذریعے کیسے تقرب الہیٰ حاصل کیا جاسکتا ہے؟! حالانکہ تمام عبادات توقیفی ہیں۔ مزید برآں کہ اہل سنت کے نزدیک قول، فعل اور تقریر پیغمبر سنت کہلاتا ہے، جبکہ نماز تراویح کے بارے میں ایسی کوئی ایسی چیز ثابت نہیں ہے۔ بنابریں، نمازِ تراویح بدعت ہے اور ہر بدعت تشریع و گمراہی ہوتی ہے، جبکہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الصحاح تاج اللغة و صحاح الوبية، اسماعيل بن حماد جوھری، جلد 3، صفحہ 1183، چھاپ: دارالعلم، بيروت۔
2۔ البدعة مفهومها حدّها آثارها و مواردها، علامه جعفر سبحانی، صفحہ23، نقل از العين، چھاپ: مؤسسه امام صادق۔
3۔ صحيح بخاري، ابوعبديه محمد بن اسماعيل،جلد1، حدیث 342، باب فضل من قام رمضان، چھاپ: دارالمعرفة، بيروت۔
4۔ صحيح بخاري،ابوعبديه محمد بن اسماعيل، جلد1، باب فضل من قام شهر رمضان، قم، 342، چھاپ: دارالمعرفة، بيروت۔
5۔ الفقه علي مذاهب الاربعه و مذهب اهل البيت،عبدالرحمن الجزيري،جلد1، صفحہ 473، چھاپ: دارالثقلين، بيروت۔
6۔ وسائل الشيعه، محمد بن الحسن حرالعاملي، جلد 3، ابواب نافله شهر رمضان، باب 10 حدیث 1-2-4۔
خبر کا کوڈ : 863627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید حسین آغا شیرازی
United Arab Emirates
ماشاءاللہ آغا صاحب
ہماری پیشکش