0
Wednesday 20 May 2020 11:12

یوم القدس اور اس کے تقاضے

یوم القدس اور اس کے تقاضے
تحریر: تصور حسین شہزاد

فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکہ اور اسرائیل کیساتھ دستخط شدہ تمام معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ جن معاہدوں کو ختم کیا گیا ہے، ان میں اوسلو معاہدہ بھی شامل ہے، جس پر 1993ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے یہ اعلان رملہ میں بلائے گئے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا۔ ہنگامی اجلاس بلانے کا بنیادی مقصد مغربی کنارے کے بعض علاقوں کو اسرائیل میں ضم کیے جانے کے اعلان کردہ منصوبے پر غور و خوص کرنا تھا۔ اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو آئندہ ڈیڑھ برس کیلئے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کیا ہے۔ نیتن یاہو نے انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو مغربی کنارے کے علاقوں کو اسرائیل میں ضم کر دیں گے اور اسے اسرائیلی خود مختاری کی حدود میں لے آئیں گے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ اب اسرائیل کو ایک قابض طاقت کی حیثیت سے دنیا میں متعارف ہونا ہوگا اور بوجھ بھی اُٹھانا پڑے گا۔ فلسطینی صدر نے فلسطینیوں پر کیے جانیوالے مظالم کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی اور کہا کہ ہم اسرائیل کیساتھ ساتھ امریکہ کو بھی ڈھائے جانیوالے مظالم میں شریک سمجھتے ہیں۔ عالمی غیر جانبدار مبصرین بھی روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی میں تمام عالمی قوانین پامال کر رہا ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا پس منظر چونکہ یہودی ہے، اس لئے اس کی ہمدردیاں کچھ زیادہ ہی اسرائیل کیساتھ ہیں۔ ٹرمپ نے جہاں اسرائیل اور یہودیوں کی بہبود کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہیں، وہیں اپنے یہودی داماد جیرڈ کشنز کو بھی اپنا مشیر مقرر کرکے خصوصی اختیارات دے رکھے ہیں، جو دنیا بھر میں اسرائیل کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی ناتجربہ کاری کے باوجود جیرڈ کشنر کو وائٹ ہاؤس کے مشیر کے طور پر وسیع ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں۔ ان کے فرائض میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن اور میکسیکو کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر بھی ٹرمپ کا داماد جیرڈ کشنز الگ سے آل سعود کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتا رہا۔ ان ملاقاتوں میں جہاں اسرائیل کیساتھ سعودی عرب کی تجارت کے معاملات زیر بحث آئے، وہیں مسلم اُمہ میں اسرائیل کیلئے نرم گوشہ پیدا کرنے کا ٹاسک بھی سعودی حکمرانوں کو دیا گیا تھا۔ جس میں سعودی عرب کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ دوسرا امریکہ کی  جانب سے جب سے ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں (امریکہ) نے ہی وہابی ازم کو پروموٹ کیا اور اس سے اپنے مقاصد حاصل کئے، تب سے مسلم اُمہ میں سعودی عرب کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ سعودی عرب ویسے بھی وقت کیساتھ ساتھ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔

صورتحال ایسی بنتی جا رہی ہے کہ سعودی عرب کی حیثیت مسلم ملک کی کم اور اسرائیل کے دوست کی زیادہ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلیوں کی سعودی عرب میں آمدورفت میں اضافے نے بھی بہت سے مسلم ممالک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب جبکہ پوری دنیا جمعۃ الوداع کو "یوم القدس" کے عنوان نے منا رہی ہے اور اس دن پوری دنیا میں مظلوم فلسطینیوں کیساتھ اُمت مسلمہ بھرپور اظہار یکجہتی کرتی ہے۔ اسرائیلی امت مسلمہ کی بیداری پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ گذشتہ برس امریکہ و اسرائیل کے مشترکہ پلان "سنچری ڈیل" کا جنازہ جس انداز سے نکلا، اس کا کریڈٹ بھی یوم القدس کو ہی جاتا ہے، کیونکہ یوم القدس کے موقع پر ہی مسلمان ملکوں کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو سنچری ڈیل منصوبہ بے نقاب کرنے کا موقع ملا تھا۔ سنچری ڈیل ایسا بھیانک پلان تھا کہ اگر فلسطین میں نافذ ہو جاتا تو اس سے پوری دنیا غیر محفوظ ہو جاتی اور سرمایہ دار جہاں چاہتے، جس ملک میں چاہتے، اپنی الگ ریاست بنا لیتے۔ عالمی برادری نے بھی اس حوالے سے اس کے مابعد خطرات کا ادراک کیا اور اس کی حمایت سے دستبردار رہی۔

اب ایک بار پھر "یوم القدس" پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ یہ دن اس عہد کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری مسلم دنیا، خود کو "جسدِ واحد" ثابت کرنے کیلئے اپنے مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ امت مسلمہ جسدِ واحد کی مانند ہے، کسی ایک حصے میں تکلیف پورا وجود محسوس کرے، تو یوم القدس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مظلوم و محصور فلسطینی بھائیوں کا درد محسوس کریں۔ اس عظیم الشان موقع پر بھی اگر ہم اپنے مظلوم بھائیوں کا درد محسوس نہیں کرتے تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ نبی کریم کی حدیث کے مطابق ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا ہم اس "جسدِ واحد" کا حصہ ہیں یا نہیں، اگر آپ اپنے دل میں مظلوموں کا درد محسوس کرتے ہیں تو یقیناً آپ نبی کریم (ص) کے بتائے ہوئے راستے پر ہی ہیں اور اگر آپ مملکت کی مصلحتوں کا شکار ہیں تو ایک بار غور کر لیں کہ آپ اس راستے سے ہٹ چکے ہیں، جس پر چلنے کا حکم ہمیں ہمارے نبی کریم (ص) نے دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 863749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش