0
Wednesday 20 May 2020 20:41

یوم القدس کا تاریخی جائزہ

یوم القدس کا تاریخی جائزہ
اداریہ
یوم القدس کا اعلان ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعدا ہوا۔ امت مسلمہ کو اس حوالے سے امام خمینیؒ کی بصیرت کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ جنہوں نے زمانے کے تقاضے اور فلسطین کے مسئلے کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تاریخی اعلان کیا۔ البتہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عالمِ تشیع اسرائیل کی غاصب صیہونی حکومت کے قیام کے دن سے اس کا مخالف تھا اور اہل تشیع نے غاصب صیہونی حکومت کے قیام کے دوسرے ہی دن آیت اللہ کاشانی اور شہید نواب صفوی کی اپیل پر تہران میں ایک بہت بڑا احتجاجی اجتماع کیا اور اجتماع کے بعد اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے باقاعدہ فوجی بھرتی مرکز تشکیل دینے کا اعلان کیا۔

بعد میں اسی مرکز میں پانچ ہزار رضاکار تیار ہوئے، جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں اسرائیل سے باقاعدہ مسلح جنگ میں شرکت کا اعلان کیا۔ مئی 1948ء سے لیکر آج تک عالم تشیع کے بزرگ علماء نے ہمیشہ سخت الفاظ میں غاصب اسرائیل کی مذمت کی اور اس غیرقانونی حکومت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ شہید نواب صفوی جنہیں ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ابتدائی شعور پیدا کرنے کرنے والی نیز شاہِ ایران کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے والی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے کئی عرب ممالک کا دورہ کیا اور الازہر یونیورسٹی مصر، میں فلسطین کے موضوع پر انتہائی جذباتی اور تاریخی خطاب کیا۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی فکری بنیادیں فراہم کرنے والے عظیم عالم دین آیت اللہ استاد مرتضیٰ مطہری نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر آج امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہمارے درمیان موجود ہوتے تو اپنے فرزندوں حسنؑ و حسینؑ کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کے لیے مقبوضہ فلسطین کے لیے روانہ کرتے۔ عالم تشیع چونکہ ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے، لہٰذا امام خمینیؒ سمیت ہر دور کے علماء نے فلسطین کیلئے آواز بلند کی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی اپنے اسلاف کے راستے پر چلتے ہوئے آج مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اولین مسئلہ قرار دیتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ پوری قوت و طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 863877
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش