0
Friday 22 May 2020 23:35

امریکہ پاکستان کو ایک اور ڈنگ مار سکتا ہے؟

امریکہ پاکستان کو ایک اور ڈنگ مار سکتا ہے؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امریکی استعماری ذہنیت برطانوی سامراج کی طرز پر پوری دنیا میں لوٹ مار پہ مبنی ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی بھی اسی کی عکاسی کرتی ہے۔ مٹھی بھر امریکی صیہونی لابی کے معاشی مفادات کی خاطر کئی ملکوں کو تاراج کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ریاستوں کو دوستی اور باہمی تعلقات کے نام پر غلامی کی حد تک مغلوب رکھا جائے۔ جہاں ایسا ہو رہو ہو وہاں اس میں اضافہ کیا جائے اور جہاں کوئی رکاوٹ محسوس ہو، متعلقہ ملک کو کمزور کرنے کیلئے شورش، دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، عالمی اداروں میں ساکھ خراب کرنے اور سرحدوں کو ناامن کرنے کیساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کیساتھ اس ملک کے سیاسی، معاشی اور تاریخی تعلقات میں دراڑ پیدا کی جائے۔ شیطان بزرگ امریکہ نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان میں آ دھمکا، اس سے قبل روسی جارحیت کو ناکام بنانے کیلئے مدد کے نام پر خطے میں اثر و رسوخ بڑھایا۔

پاکستان روس کیخلاف امریکہ کا اتحادی رہا، پھر ان کے خلاف امریکہ نے اتحادی بنایا جنہوں نے روس کیخلاف جنگ کی تھی۔ یعنی عدم استحکام در عدم استحکام کا سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ اسٹھ کی دہائی سے چین اور امریکہ کے درمیان پاکستان نے پل کا کردار ادا کیا۔ چین میں انقلابات آئے، گذشتہ صدی کے آخر میں چین مستحکم ہوا۔ روس ٹوٹ گیا، امریکہ واحد سپر پاور بن گیا۔ روس کے توڑنے میں پاکستان نے تاریخی کردار ادا کیا۔ افغان جنگ میں منصوبہ بندی، تربیت، رسد اور افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے سے ہمارے جرنیل ہیرو بن کر سامنے آئے، لیکن سپر پاور کا تمغہ امریکیوں نے سجایا۔ روس کے بعد دوسرا ملک جس نے زبردست ڈپلومیٹک قوت استعمال کرتے ہوئے اپنی معاشی طاقت کو اس طرح آگے بڑھایا کہ امریکہ روس کیخلاف آزمائے گئے حربے استعمال نہیں کر سکا، آج چین امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے، امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ اکیلے سپر پاور نہیں ہیں۔

اب کی بار چین نے پاکستان کو اتحادی بنایا ہے۔ امریکہ کی سرتوڑ کوشش ہے کہ پاکستان کو پہلے کی طرح ایک کمزور ریاست کے طور پر معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھا جائے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا بنیادی وژن اور مشن یہی ہے، جس پر عملی جامہ پہنانے کیلئے جنوبی ایشاء کی ذمہ داری ایلس ویلز کی دی گئی ہے۔ پینٹاگون افغانستان میں اپنے منحوس قدموں کو باقی رکھتے ہوئے انخلاء کے نام پر افغان عوام اور پاکستان کی آنکھوں کی دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان طالبان اپنا وژن بیان کر چکے ہیں کہ ہمسایہ ممالک بالخصوص چین، ایران اور پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھیں گے۔ ان حالات میں امریکی وزارت خارجہ کی ایلس ویلز اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے خطے کے سب سے اہم منصوبے سی پیک کی شفافیت اور چین کی طرف سے پاکستان کو دھوکا دینے کی باتیں پھیلا رہی ہیں۔ اتنے بڑے منصوبوں میں شاید ہی مکمل شفافیت رہ پاتی ہو، لیکن یہ بات کہنے والا کون ہے، امریکہ۔ جنہوں نے پوری دنیا کو کرپٹ کیا ہے، چوریاں کی ہیں، اقوام کا مال لوٹا ہے، علاقے غصب کیے ہیں، رہزنی کی ہے۔

سی پیک سے اصل تکلیف امریکہ کو اس لیے ہے کہ چین نے اس کی معاشی اور سیاسی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے، پاکستان سینہ تان کے چین کیساتھ کھڑا ہے۔ یہ کوریڈور چین کے خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والے صوبے سنکیانگ سے پاکستان کی جغرافیائی حدود سے منسلک ہوگا اور یوں جنوبی سنکیانگ پاکستان سے زمینی رابطے میں آجائے گا، اسے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جیسے تابکاری کے علاقوں میں چین کے کاشغر، تومشوق، اتوشی اور سنکیانگ کا علاقہ ایکٹو آف کزلسو، جب کہ پاکستان کے علاقے اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں سمیت گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، یہ علاقے ایک ہی خطے کی تین گزرگاہوں، 2 محوری مرکزوں اور 5 متحرک زونز پر مبنی ہیں، جو راہداری کی ٹریفک کے لیے نہایت اہم ہیں۔

اس منصوبے کی یہ ساری افادیت اور خطے کی پائیدار ترقی کیلئے اس کے اثرات امریکیوں کے سامنے ہیں، اسی لیے امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے آن لائن میڈیا بریفنگ میں پاک چین اقتصادی راہداری اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتےہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے شکاری قرض کی شرائط سے ممالک کو آزاد کرے۔، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام شکاری قرضوں سے جو ملک مشکلات کا شکار ہیں، چین انہیں شفاف طریقے سے ان سے ریلیف فراہم کرے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں، شفافیت کی کمی اور اس منصوبے میں شریک چینی کمپنیوں کو منافع کی جس نامناسب شرح کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اس کی وجہ سے امریکا کو پاک-چین اقتصادی راہداری پر تحفظات ہیں۔ اس بیان کو غور سے دیکھیں تو ایک ایک لفظ سے لالچ، فریب، دھوکا دہی، مایوسی پھیلانے، غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بو آتی ہے۔

لیکن یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں چینی سفارتخانے نے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے امریکی سفیر ایلس ویلز کے بیان کو غیرذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے پاک چین تعلقات خراب کرنے کی ناکام کوشش کی۔ چینی سفارتخانے نے ایلس ویلز کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بالکل بے بنیاد اور ان کے سابقہ لہجے کی تکرار قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ ہم پاکستان کو برابر کا شراکت دار سمجھتے ہیں اور ہم نے پاکستان سے کبھی بھی ڈومور کا مطالبہ نہیں، پاکستان کے ترقی کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے مقامی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی، ہم نے ہمیشہ خطے میں پاکستان کے ذمے دارانہ کردار کو اجاگر کیا اور کبھی بھی ان پر دباؤ نہیں ڈالا۔ چین نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری دراصل پاکستان اور چین کی حکومتوں کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی ایک منصوبہ ہے، اس میں ہمیشہ باہمی فوائد، تعاون اور شفافیت کا مظاہرہ کیا گیا۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ دونوں فریقین نے سائنسی تحقیق اور برابری کی بنیاد پر کی گئی مشاورت کے بعد منصوبے کی منصوبہ بندیاور اس پر عملدرآمد شروع کیا، اس منصوبے میں کام کفرنے والی تمام چینی کمپنیاں اپنے اپنے شعبوں میں صل اول کی حیثیت رکھتی ہیں اور مقامی قوانین کی مکمل طور پر پیروی کرتے ہوئے کام کررہی ہیں۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ سی پیک میں ڈھائی کروڑ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی جائے گی اور پاکستان میں 75ہزار نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے، چین پچھلے پانچ سالوں سے لگاتار پاکستان میں براہ غیرملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کورونا وائرس کے سلسلے میں بھی پاکستان کی مدد کا عزم ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ سی پیک میں کام کرنے والی تمام کمپنیوں نے پاکستان میں طبی امداد کے لیے بھاری عطیات دیے، چین میں 20ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں جو چینی حکومت کی جانب سے دی گئی اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

بیان میں بتایا کہا اگلے مرحلے میں دونوں ممالک صحت عامہ، تعلیم، صنعتی شعبے اور زراعت میں تعاون کو فروغ دیں گے اور کورونا وائرس کے بعد بھی سی پیک پاکستان کی معیشت کی بحالی میں اہم محرک ثابت ہو گا۔ چین نے واضح کیا کہ وہ پاکستان پر قرض کی واپسی کے لیے کبھی بھی دباؤ نہیں ڈالے گا اور قرض کے حوالے سے کوئی شرائط عائد نہیں کی گئیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ہمارا پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر تبصرہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکا دونوں ملکوں کو کم از کم بنیادی احترام کی نگاہ سے دیکھے گا اور چین امید کرتا ہے کہ امریکا سرد جنگ اور ایک کا فائدہ اور دوسرے کے نقصان کی سوچ کو ترک کر کے پاکستان کی کچھ ٹھوس امداد کرے گا۔ چین نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمیں کسی استاد کی ضرورت، خصوصاً امریکا جیسے استاد کی ضرورت نہیں۔ مبصرین کی رائے ہے کہ امریکہ چین کیساتھ کہیں بھی کھلی جنگ کی پوزیشن میں نہیں اور جس طرح امریکہ کی معاشی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے، اس سے یہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہیگا، لیکن موجودہ بیانات پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں، اس کے ساتھ امریکی چارہ ساز دوسرے حربے میں استعمال کر سکتے ہیں۔ جسکی ایک جھلک کشمیر میں مجاہدین کیخلاف داعش اور بھارت کے اتحاد کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 864172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش