0
Friday 22 May 2020 02:33

کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس

کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

یقیناً کرونا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے، ایسی بیماری یقیناً خطرناک ہے اور ہر ایک کو اس بیماری کے حوالے سے تشویش لاحق ہونا چاہیئے، جس نے دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہو اور جس کے چلتے تین لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے ہوں، شک نہیں کہ پوری دنیا اس وائرس سے پریشان ہے اور ہونا بھی چاہیئے۔ ایسے میں ہر ایک پر لازم ہے کہ خود بھی احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اور اپنے گھر والوں کو اس خطرناک وائرس کے حملہ سے بچائے، ساتھ کوشش کرے کہ یہ موذی وائرس کہیں اور نہ پھیلنے پائے۔ ہر صاحب شعور یقیناً احتیاط بھی کر رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ دوسرے افراد اس سے متاثر نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کے اندر اس وائرس کی نشان دہی ہوتی ہے تو کچھ دنوں کے لئے اسے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے اپنے بھی اس سے نہیں ملتے کہ کہیں وائرس کی زد میں نہ آجائیں۔ جگہ جگہ قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں، مبتلا لوگوں کو وہاں رکھا جا رہا ہے۔

یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وائرس سے دنیا کیسے لڑ رہی ہے، کاش جس طرح دنیا اس وائرس سے لڑ رہی ہے، ویسے ہی اس سے زیادہ خطرناک وائرس سے بھی لڑتی، ایسا وائرس جو دنیا کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے، بشریت کے سکون کے لئے خطرہ ہے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے دنیا جس طرح سر جوڑے بیٹھی ہے، کاش دنیا کے امن کو غارت کرنے والے مہلک وائرس کے بارے میں کچھ سوچتی، اس لئے کہ یہ وائرس تو ایسا ہے، جو کرونا کے مریضوں کو بھی نہیں بخشتا، یہ وائرس تو ایسا ہے، جو کرونا کی وبا سے جوجھتے لوگوں کی جانوں تک کو نہیں بخشتا ہے۔ جس طرح کرونا وائرس انسان کے جسم میں داخل ہو کر اس کے خلیوں میں سرایت کرکے انسانی پھیھپڑوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے، اسی طرح کرونا سے خطرناک وائرس لوگوں کی فکروں میں سرایت کرکے ان سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے، جس طرح کرونا وائرس کے حامل افراد کو الگ تھلگ نہ کیا جائے تو یہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور جتنا لوگوں سے گھلنا ملنا بڑھتا ہے، متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، ویسے یہی کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے۔

یہ اقتصادی تعلقات کے بہانے، ٹکنالوجی و پیشرفت کے نعروں کی آڑ میں قوموں کے اندر گھس کر انہیں برباد کر دیتا ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے اور اس وائرس میں مبتلا جو بھی لوگ ہیں، چاہے اپنے ہوں یا پرائے، سب کو ضروری ہے کہ ایک محدود فضا میں سمیٹ دیا جائے اور مل جل کر اس سے لڑنے کی حکت عملی تیار کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے کہاں، پایا کہاں جاتا ہے اور کیسے پتہ کہ یہ وائرس کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے تو اس کے لئے مطالعہ و غور فکر کی ضرورت ہے۔ اس مختصر سے نوشتے میں ہم کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس کی نشاندہی کے ساتھ کوشش کریں گے کہ ثبوتوں کی روشنی میں یہ بتا سکیں کہ یہ کتنا مہلک ہے، اس وائرس کا نام ہے اسرائیل، یوں تو اسکا مرکز مشرق وسطیٰ ہے، لیکن یہ آج ہر طرف پھیلا نظر آتا ہے۔

کیوں کرونا سے خطرناک؟
یہ کرونا سے خطرناک اس لئے ہے کہ یہ دہشت گردی کو تقدس فراہم کرتا ہے اور بے گناہوں کا قتل عام کرواتا ہے، آپ کہیں گے کہ ثبوت کیا ہے تو ثبوت یہ ہے کہ اس نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے، لاکھوں کا قتل عام کیا اور ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ روز ہی اس کی قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے۔ یہ نہ بچوں کو دیکھتا ہے، نہ بوڑھوں کو اور نہ عورتوں کو، جو بھی اس کے سامنے آجائے، یہ اسے نشانہ بناتا ہے اور دہشت گردی کو ایک تقدس عطا کرتے ہوئے اسے قانون کی صورت پیش کرتا ہے، ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال ہو کیسے؟ تو جواب کے لئے اسے اسرائیل کی تشکیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھنا ہوگی۔ جابجا اسے ایسے ثبوت مل جائیں گے کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہے، خاص طور پر انتفاضہ اول سے لیکر اگر دوسرے انتفاضے کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔

جب آپ انتفاضہ دوم کے وجود میں آنے کے محرکات کو دیکھیں گے تو اس وائرس کا بھیانک چہرہ سامنے آجائے گا، چنانچہ 28 ستمبر 2000ء اس دور کے اسرائیلی وزیراعظم «شارون» نے جب خاصی تعداد میں فوج کی بھاری نفری کے مسجد الاقصیٰ کا رخ کیا تو مزاحمت کے طور پر انتفاضہ دوم  وجود میں آیا، جسے انتفاضہ اقصیٰ کے نام سے جانا گیا، جس کے نتیجہ میں 2002ء میں کچھ فلسطینیوں نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے شہادت طلبانہ آپریشن کئیے اور جب یہ تحریک آگے بڑھی تو واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ممتاز استاد «ناتھن لوین [1]» نے اعلان کیا کہ فلسطینیوں کے اس شہادت طلبانہ اقدام کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے گھر والوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ اپنی ہی سرزمین کو حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کرنے والوں کے لئے یہ سزا کونسی قانون کی کتاب میں ہے کہ شہادت طلبانہ کارروائی کرنے والوں کے گھر والوں کو پھانسی دے دی جائے، ہر انسان جہاں اس بات پر حیران ہے، وہیں آپ اس سزا کے پیچھے کتاب مقدس کی تعلیمات کو بھی دم بخود رہ جائیں گے،  چنانچہ ناتھن کی جانب سے  ایک یہودی اخبار  «فاروارڈ»[2] کو اپنے دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران یہ بات بھی کہی جاتی ہے: "غیر فوجی عام فلسطینیوں کے قتل کی پالیسی، خودکش (شہادت طلب) حملوں کے مقابل ضروری انتباہ کو فراہم کرتی ہے!! لوین کی جانب سے اس سلسلہ میں اپنی کہی بات کو تلمودی نظر شمعا [3] سے بھی جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے، یعنی یہ وہ بات ہے، جو اس سے قبل شمعا میں بیان ہو چکی ہے۔

یہ وہ نظریہ ہے، جس کے بموجب یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ قوم جس کے شہری مارے جاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک بامقصد ٹرر کے ذریعہ یا دیگر وسائل کی بنیاد پر اس بات پر مختار و آزاد ہوں کہ خودکش بمبار (شہادت طلب) کے پہلے درجہ کے رشتہ داروں جو کہ والدین، بھائیوں اور بہنوں کو شامل ہے، کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ کاش کوئی اس عجیب و غریب نظریہ کو بیان کرنے والے کے سامنے 25 فروری 2002ء کا وہ واقعہ رکھے، جب ایک میریام گلداشتاین نامی یہودی ہپرون کی ایک مسجد میں داخل ہوتا ہے اور 40 فلسطینیوں کو نماز کی حالت میں شہید کر دیتا ہے اور عجیب بات ہے کہ اس کی ماں اپنے بیٹے کے اس عمل کی تحسین و تمجید کرتی ہے اور اس پر افتخار کرتی ہے[4]۔ ان سب چیزوں کے باوجود، کیا کوئی منطق یہ کہتی ہے کہ یہ اقدام کرنے والے میریام کے گھر والوں کو فوراً موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیئے۔؟

یہ تو محض افراطی یہودیوں کی ان فلسطینی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا ایک نمونہ ہے کہ جن کا خانہ و کاشانہ یہودیوں کی نفرت کا شکار ہوگیا۔ بڑی اچھی بات کہی ''فسلطینیوں کی نسل کشی نامی کتاب''[5] کے مصنف نے کہ "ناتھن لوین صاحب اس مذکورہ بالا واقعہ کے پیش نظر ضروری ہے کہ آپ اس قوم کے بارے  میں جو اپنے حق اور اپنی سرزمین کا دفاع کر رہی ہے، ایک نظرثانی کریں اور ایسے نفسیاتی اقدامات سے پرہیز کریں، جو یہودی جوانوں کے ذہنوں کو اکسانے کا سبب ہیں، اب آپ اندازہ لگائیں کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہے، جو کہ دہشت گردی کو ایک تقدس فراہم کر رہا ہے۔

یہ تو ایک مثال تھی، اگر آپ صہیونی رہبروں کی باتوں کو سنیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، جہاں یہودیوں کو ایک جگہ لانے کے لئے خود ان کی مرضی کی ضرورت بھی نہیں ہے، بلکہ کچھ ہی لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ چنانچہ یہودیوں کی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کا امریکی و یہودیوں کے ایک مشترکہ اجتماع کا یہ بیان قابل غور ہے، "صہیونیت کے اصولوں میں ایک اصول تمام یہودیوں کو اسرائیل لانا تھا، ہم مختلف گھرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری مدد کریں، تاکہ ہم ان کے بچوں کو اسرائیل لے جائیں، البتہ یاد رہے کہ اگر وہ ایسا نہیں بھی کریں گے تو ہم زبردستی انہیں اسرائیل لے جائیں گے۔" ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اہداف کے امتداد میں یہودیوں کی اپنی رائے اور ان کی اپنی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یہی وہ چیز ہے، جس نے صہیونیوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

چنانچہ بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر ماگنسس سلسلہ سے لکھتے ہیں: ہمارا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ صہیونزم کی تحریک دنیا میں یہودی ستیزی کے ختم ہونے کا سبب ہوگی، لیکن آج ہم اس کا بالکل الٹا اثر دیکھ رہے ہیں۔ صہیونیوں نے یہود ستیزی سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ہٹلر کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا، یہاں یہ تسلط پسندانہ عزائم یہودیوں کو نقصان پہنچانے کا سبب رہے ہیں، وہیں یہ بات بھی ہے کہ اگر صہیونی نظریات سے ہٹ کر کوئی یہودیوں کے لئے آگے بھی آیا ہے تو اسے بھی مخالفت ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ ماریس ارنسٹ رفیو جی اور ملک بدری امور سے متعلق بین الاقوامی ادارہ روزولٹ کے نمائندہ اس بارے میں کہتے ہیں: جب یہودیوں کے لئے میں جرمنی میں ایک امن و سکون کی جگہ تلاش کر رہا تھا، اس وقت یہودی میرے اس کام کے خلاف تھے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے، حتی شدت کے ساتھ میرے اوپر حملہ آور تھے۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ جو لوگ یہودیوں کے لئے ہی کام کر رہے تھے، لیکن صہیونی نظریہ سے مکمل طور پر متفق نہیں تھے، یہ تسلط پسندانہ عزائم رکھنے والے یہودی ان کے بھی مخالف تھے، یہ وائرس کتنا خطرناک ہے، اسے سمجھنا ہو تو اس وائرس سے بری طرح متاثر ملک امریکہ کو ہی لے لیں، جس کے بارے میں "صہیونی لابی اور امریکہ کے خارجی سیاست" نامی کتاب لکھنے والے دو عظیم قلمکاروں نے اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے کہ امریکہ صہیونی لابی کے آگے کتنا بے بس ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب اوہ جوزف میئر شیمر(John Mearsheimer (/mɪrʃhaɪmər/؛ اور اسٹیفن والٹ  [6] کی مشترکہ کاوش ہے۔ دونوں ہی آر وینیل ہیریسن ڈسٹرکٹ میں ممتاز  استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ کتاب کے مصنفین کا مقصد اسرائیلی حکومت کی حمایت کے حوالے سے صہیونیوں کی غلط توجیہات اور نئے قدامت پسندوں کی اس ناجائز حکومت کی حمایت کے حوالے سے کی جانے والی تاویلوں کو آشکار کرتے ہوئے ان پر خط بطلان کھینچنا ہے۔

اس کتاب میں واضح طور پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی سیاست مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا، جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور ان کی حقارت کی انتہا نہیں۔ مصنفین کی نظر کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی خارجی سیاست ہر ایک عامل سے زیادہ صہیونی لابی سے متاثر ہے، یہاں تک کہ آخری چند دہایہوں میں خاص کر اسرائیل و عربوں کی جنگ کے دور سے اسرائیل سے تعلقات  کا مسئلہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی بنیادی سیاست میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ کتاب 2006ء میں چھپی اور اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد دنیا بھر میں مخالفین و موافقین کے درمیان بحث و گفتگو کا بازار گرم ہوگیا۔ قابل ذکر ہے کہ 2006ء میں ہی یہ کتاب کئی بار پرنٹ ہوئی اور اس کے ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہوگئے، یہاں تک کہ 2006ء میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب قرار پائی۔

کتاب کے ایک حصہ میں ہمیں ملتا ہے"صہیونی لابی امریکہ میں اس قدر طاقتور ہے کہ اس نے ناقابل خدشہ یہ عقیدہ لوگوں کے ذہنوں میں ترسیم کر دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی مفادات ایک ہی ہیں''[7] واضح سی بات ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے قومی مفادات کے پیش نظر تدوین پاتی ہے، جبکہ یہ بات مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی پر صادق نہیں آتی، اس لئے کہ صہیونی رژیم کے مفادات کا تحفظ اس علاقہ میں امریکہ کی اصلی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز ہے۔  کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور مانا جانے والا ملک اتنا بے بس ہے کہ کہ امریکہ کی صدارت کے امیدواروں میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے، چاہے وہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ کوئی بھی ایسا نہیں، جو صہیونیوں کو خشنود کئے بغیر ان کی رضایت کے بغیر ان کی مالی حمایت کے بغیر الیکشن میں کامیاب ہونے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا، جو ایک طرف تو کرونا کے وائرس سے لڑنے میں ناکام رہا ہے، دوسری طرف کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس کو اپنے لئے نسخہ شفا بخش سمجھ بیٹھا ہے اور دونوں ہی وائرس ایسے ہیں، جو مسلسل اسے تباہ کئے جا رہے ہیں۔

یوم القدس اور صہیونی وائرس:
یوم القدس ہمارے سامنے ایک ایسا پلیٹ فارم  ہے، جسکے ذریعے ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ کرونا کے وائرس سے زیادہ خطرناک وائرس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے کہ کرونا صرف انسانی جسم کو ناکارہ بنا کر اسے موت کے دہانے تک لے جاتا ہے، لیکن کرونا سے خطرناک وائرس قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ پہلے تو صہیونی فکر کا یہ وائرس انسان کے ایمان کو کھاتا ہے، اسے مادیت میں غرق کر دیتا ہے اور پھر اسے ان ظاہری و مادی چیزوں کا غلام بنا لیتا ہے، جنکی کوئی حقیقت نہیں، جھوٹی و کاذب ضرورتوں کو وجود میں لاتا ہے۔ اہل ایمان کو ہی مصنوعی دشمن بنا کر پیش کرتا ہے، مذہب کو مذہب کیخلاف استعمال کرتا ہے جبکہ یوم القدس ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ہم متحد ہوکر اس وائرس کا مقابلہ کریں، لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے، جب ہم اس دن کو علامتی انداز میں نہیں بلکہ اسکی روح کیساتھ منائیں کہ یہ محض ایک علامتی رسم نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کا وہ راستہ ہے، جو قبلہ اول کی صہیونیوں سے رہائی پر منتہی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حواشی:
[1]۔ nathanlewin
[2]۔ forward۔ Forward / June 7/2002
[3]۔ shma
[4]۔ Seattle Times / March 5, 1994 p. A6
[5]۔ Israeli Holocaust Against the palestinians
[6]۔ michaelhoffman&moshe Lieberman
Alison Weir
Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel [7]
خبر کا کوڈ : 864192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش