0
Friday 22 May 2020 12:36

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ اسلام آباد کے زیراہتمام آزادی قدس سیمینار

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ اسلام آباد کے زیراہتمام آزادی قدس سیمینار
رپورٹ: جامعۃالمصطفیٰ العالمیہ اسلام آباد

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ اسلام آباد کے زیر اہتمام آزادی قدس سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار کرونا کی وجہ سے آن لائن منعقد ہوا، جسے سینکڑوں لوگوں نے آن لائن دیکھا۔ اس سیمینار سے ماہر قانون، پروفیسر، علمائے دین اور وحدت امت کے لیے کام کرنے والے تمام مسالک کے رہنماوں نے آن لائن شرکت کی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظریانی کونسل کے ممبر اور امام خمینی ؒ ٹرسٹ کے سربراہ مولانا سید افتخار حسین نقوی نے کہا مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کا امام خمینیؒ نے حکم دیا کہ یوم القدس منایا جائے۔ یہ مظلوموں کی آواز کا دن ہے، یہ دن ظالموں سے نفرت کے اظہار کا دن ہے اور منافقوں کے چہروں سے منافقانہ نقاب اتارنے کا دن ہے۔ ہم اعلان کریں کہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں اور ہم متفق ہیں کہ قبلہ اول کی آزادی ہم سب کی ذمہ داری ہے، قبلہ اول ہماری عظمت کا نام ہے۔ امت مسلمہ کے ساتھ برطانیہ نے خیانت کی، اس نے فلسطین اور کشمیر  کے مسائل پر خیانت کی۔

کشمیر کا مسئلہ ہمیں کمزور کرنے کے لیے چھوڑا گیا اور تمام وعدوں کو پامال کیا گیا۔ اہل کشمیر مظلوم ہیں، ان کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کا خنجر ہمارے قلب میں مارا جاتا ہے۔ فلسطین کا مسلمان دربدر ہے، ان کے گھروں پر  صیہونیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ قائداعظم نے فلسطین کے لیے اہم کردار ادا کیا، اس کے بعد ہمارے حکمرانوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ کشمیر نو ماہ سے لاک ڈاون میں ہے، کشمیری بیٹوں کی آہیں نہ سنی گئیں تو پوری دنیا میں لاک ڈاون ہوگیا۔ زبردستی یہودی آباد کیے گئے، اب یہی عمل کشمیر میں دہرایا جائے گا۔ ہم امام خمینیؒ کو سلام پیش کرتے ہیں، انقلاب جیسے ہی کامیاب ہوا، اسرائیلی سفارتخانہ بند کر دیا گیا اور اس کی جگہ فلسطینی سفارتخانہ بنا دیا گیا اور فلسطین کا پرچم لہرا دیا گیا۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایران واحد ملک ہے، جو ہر حوالے سے اہل فلسطین کی مدد کر رہا ہے، مال و اسلحہ سے مدد کی جا رہی ہے۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ اسلام آباد کے پرنسپل مولانا انیس الحسنین خان نے سب  شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آزادی قدس اور حمایت مظلومین کے لیے اس سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔ دنیا کے تمام قوانین کے مطابق اسرائیل ایک غاصب ملک ہے اور اس نے فلسطینیوں کو گھروں سے باہر نکال دیا ہے۔ انسانی غیرت، حمیت اور حریت کا تقاضا ہے کہ انسان اہل فلسطین کی حمایت کرے، کیونکہ اسرائیل انسانی اقدار کا دشمن ہے، جس کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں دنیا کے امن کو داو پر لگائی ہوئے ہیں۔ عراق سے یمن تک ہر جگہ امریکی کردار منفی ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر ملکوں میں جاتا ہے اور دونوں کو تباہ کرکے آتا ہے۔ امریکہ کو صرف اور صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ امام خمینی ؒ نے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی پھینکیں تو اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔ مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے بین الاقوامی یوم القدس کی بنیاد رکھی ہے، تاکہ فلسطینیوں کو یقین ہو کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ یوم القدس کے دن ہر صورت میں اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔
 
ملی یکجہتی کونسل کے ڈبٹی سیکرٹری جنرل اور چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ محترم جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ پوری دنیا سے صیہونیوں کو فلسطین لا کر  آباد کیا گیا ہے۔ صیہونیت کوئی مکتب فکر نہیں ہے، بلکہ ظلم و جور کا نظریہ ہے۔ ترکوں نے انہیں آباد ہونے سے روکا تھا، آج کے ترک آباء و اجداد کے ورثہ دار ثابت نہیں ہوئے، وہ اسرائیل  کو تسلیم کرتے ہیں۔ جیسے امام خمینی ؒ نے اسرائیل  کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ کیا اور مسئلہ فلسطین میں ارتعاش پیدا کر دیا اور جمعۃ الوداع کو یوم مستضعفین قرار دیا۔ یوم القدس نے دنیا بھر میں بیداری پیدا کی ہے، ایک سو سے زائد ممالک میں یوم قدس منایا جا رہا ہے، جو ایک مرد الہیٰ کی آواز ہے۔ مسئلہ تشدد اور انتہاء پسندی کا ہے، پوری دنیا سے لوگ جمع کیے گئے، جن کی رنگ، نسل، زبانیں اور تہذیبیں  مختلف تھیں، ان کو فلسطین میں آباد کیا گیا اور صدیوں سے رہنے والوں کو بے گھر کر دیا، مودی کشمیر میں یہی کرنا چاہ رہا ہے اور یہ مودی کو نیتن یاہو کا دیا ہوا سبق ہے۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پرورفیسر ڈاکٹر عبدالباسط مجاہد نے کہا کہ بیت المقدس وہ جگہ ہے، جہاں قبلہ اول ہے اور جہاں سے سفر معراج کا آغاز ہوا۔ وہ صیہونیوں کے قبضے میں ہے، پچاس سے زائد ممالک  اور ایک ارب سے زائد آبادی کے باوجود ہم بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ بابائے قوم نے جو خارجہ پالیسی دی، اس کے مطابق ہم فلسطین کے ساتھ ہوں گے۔ ستر سال گزر چکے ہیں، فلسطینی دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ امام خمینیؒ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے، اسلامی انقلاب کے بعد مسجد اقصیٰ کے مسئلہ کو بھرپور انداز میں اٹھایا اور یوم القدس منانے کا اعلان کیا۔ میں امام خمینیؒ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، انہوں نے  ہماری توجہ بیت المقدس کی طرف دلائی کہ آزادی فلسطین کے لیے ان کی کاوششوں کا اہم کردار ہے۔ اسلامیان پاکستان کسی ایسی کوشش کو تسلیم نہیں کریں گے، جو اسرائیل کے حق اور فلسطینیوں کے خلاف جا رہی ہو۔ الحمد للہ ہمارے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ آج کا سیمینار مسئلہ فلسطین کے اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا، موجودہ صورتحال میں یہ اہم اقدام ہے۔

 معروف اہلسنت عالم دین حضرت مولانا حیدر علوی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں سے زندگی کے تمام وسائل چھیننے جا رہے ہیں اور اس کا پشت پناہ امریکہ ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ اسرائیل دنیا کے نقشے پر ناجائز ریاست ہے، انہوں نے عرب و اسرائیل جنگ میں عملی مدد کی اور بتایا کہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں۔ امام خمینیؒ کا فلسفہ تھا کہ دنیا بھر میں موجود مظلوموں کی حمایت کرنی ہے، اسی لیے ماہ رمضان کا آخری جمعہ یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم القدس  کے اعلان کے بعد یہ مسئلہ مظلوموں اور ظالموں کا مسئلہ ہے۔ مسالک کی بحثیں مسئلہ فلسطین کے سامنے دفن ہوں جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کردار ڈبل سٹینڈرڈ ہے، غیر مسلموں کے لیے تو کارروائی کرتے ہیں، مگر اہل فلسطین انہیں نظر نہیں آتے۔ یوم القدس اب ایک انسانی دن بن چکا ہے، مسیحی، باضمیر یہودی اور دیگر اقوام مظلوم فلسطینوں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، اس کا کریڈٹ امام خمینیؒ کو جاتا ہے، جنہوں نے یہ صدا بلند کی تھی اور جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ نے یہ پیغام  دیا ہے کہ مصطفیٰ سے نسبت رکھنے والا ہمیشہ مظلوم کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔

نوجوان ماہر قانون سید محمد ہادی ہمدانی ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1922ء میں لیگ آف نیشنز کی منشا تھی کہ فلسطین یہودیوں کا بھی وطن ہوگا، وہ آ کر آباد ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے یہودیوں کی آبادکاری کی ممانعت تھی۔ اس ڈاکومنٹ میں الگ سے ریاست قائم کرنے کا اختیار نہ تھا، البتہ یہ کہا گیا تھا کہ اگر برطانیہ چاہے تو دو ممالک  میں تقسیم کرسکتا ہے۔ بیت المقدس کبھی بھی کسی بھی ڈاکو منٹ میں اسرائیل کا حصہ نہیں تھا۔ یہ برطانیہ کی امانت میں تھا 1917ء میں جب عثمانیوں سے فلسطین لیا گیا تو اردن کا بڑا حصہ بھی اس کا حصہ تھا۔ جنیوا کنونش میں کسی بھی جارح ریاست کو حق نہیں کہ وہ مقامی طور پر باہر سے اپنے لوگوں کو آباد کرے اور علاقے کے جغرافیے کو تبدیل کرے۔ بیس فیصد علاقہ فلسطینیوں کے پاس ہیں، باقی اسی فیصد پر اسرائیل قابض ہوچکا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے 2003ء میں اسرائیل کو ایک قابض ریاست کہا اور اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں آباد کاری، دیوار کی تعمیر اور فوجی موجودگی کو  غیر قانونی  قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی تمام قرار دادیں امریکہ نے ویٹو کی ہیں، اس لیے فلسطینوں پر مظالم کا جتنا قصوروار اسرائیل ہے، اتنا ہی اس کا ذمہ دار امریکہ بھی ہے۔ اسرائیل کو قبضہ کرانے اور اسے مستحکم کرنے میں امریکہ نے سرپرستی کی۔

اسکالر اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ندیم عباس نے کہا کرونا کی وجہ سے تمام سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، کرونا کے ایام میں یوم القدس آیا ہے، جو اہل فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے کا دن ہے، اہل فلسطین سے یکجہتی کا دن، جنہیں راتوں رات کیمپوں میں پھینک دیا گیا اور ان کی تیسری نسل ماہ مبارک کی ساعتیں کیمپوں میں گزار رہی ہے۔ جامعۃ المصطفی العالمیہ اسلام آباد نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ امام خمینیؒ نے اہل فلسطین سے یکجہتی کے لیے اور بیت المقدس جو قبلہ اول ہے، جہاں سے سفر معراج کا آغاز ہوتا ہے، اس کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی مظلوموں کے حامی موجود ہیں، وہ اہل فلسطین کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ انسانی المیہ ہے، اسے اسی طور پر دیکھا جانا چاہیئے۔ امام خمینیؒ نے اسے عوامی سطح پر منانے کا اعلان کیا تو اس وقت نہ تو قدس کے حوالے سے حساسیت تھی اور نہ ہی معلومات تھیں۔ مسجد اقصیٰ کو آگ لگائے جانے سے پیدا ہونے والی بیداری کو حکومتی ردعمل میں تبدیل کرکے او آئی سی کی صورت میں کنٹرول کر لیا گیا۔ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ یو این او یہ مسئلہ حل کرے گی، مگر اس کا کردار بھی انتہائی افسوسناک رہا، جہاں اسرائیلی تحفظ کی بات آئی، راتوں رات اقدامات ہوئے، جہاں اہل فلسطین کی بات آئی، آنکھیں بند کر لی گئیں۔ تمام خطابات مندرجہ ذیل لنک پر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں:
https://m.facebook.com/AMIUISB/
خبر کا کوڈ : 864196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش