0
Saturday 23 May 2020 10:35

پاراچنار، عظیم الشان عالمی القدس ریلی

پاراچنار، عظیم الشان عالمی القدس ریلی
رپورٹ: ایس این حسینی

قدس جلوس 2020ء طرح طرح کی دھمکیوں نیز حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود جمعۃ الوداع کو بعد از نماز جمعہ اپنی سابقہ روایات کے مطابق مدرسہ رہبر معظم انقلاب سے پورے جوش و خروش کے ساتھ برآمد ہوا اور اپنے سابقہ اور مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا شہید پارک پہنچا۔ رہبر کبیر انقلاب امام خمینی کے حکم پر جلوس میں ہزاروں شرکاء نے شرکت کی۔ راستے میں جلوس کے شرکاء نے امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نیز اسکے عرب غلاموں سے شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا۔ شہید پارک پہنچ کر ریلی نے جلسے کی شکل اختیار کرلی۔ اس موقع پر شدید بارش شروع ہوگئی، تاہم جذبہ حسینی کی وجہ سے شرکاء کی استقامت میں کوئی روکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ پارک کے سامنے روڈ پر مقررین نے اجتماع سے خطاب کیا۔ جلسے کا آغاز قاری سید ہدایت حسین الحسینی کی خوبصورت آواز سے کرایا گیا، جس کے بعد تحریک حسینی کے صدر مولانا عابد حسین جعفری، سابق صدر مولانا منیر حسین جعفری اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے اجتماع سے خطاب کیا۔

صدر تحریک حسینی مولانا عابد حسین جعفری نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم القدس صرف فلسطین ہی کے ساتھ مخصوص دن نہیں، بلکہ امام خمینی اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اسے دنیا بھر کے مستضعفین اور محرومین کا دن قرار دیا ہے۔ چنانچہ آج کا دن فلسطین، کشمیر، یمن، شام، عراق، لبنان، بحرین اور دنیا بھر کی تمام مظلوم اقوام کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوکل انتظامیہ کی جانب سے مقامی مسائل کے حوالے سے جانبدارانہ پالیسی قابل افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ڈی سی اور اے سی حضرات اپنے مناصب کا کوئی خیال اور لحاظ نہیں رکھ رہے، بلکہ وہ کھلم کھلا تعصب پر مبنی پالیسی چلا رہے ہیں۔ صدر تحریک نے کہا کہ اگر انہوں نے اپنی یہی معاندانہ پالیسی جاری رکھی تو ان کے خلاف حکام بالا کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہونگے۔ انہوں نے شورکی امام بارگاہ کی شہادت کے واقعے کی ایک بار پھر بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شورکی اور صدہ امام بارگاہ کو بھی جامع مسجد اہلسنت پاراچنار کے طرز پر سرکاری فنڈز سے فوراً تعمیر کرایا جائے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید عابد حسین الحسینی نے فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام کی خاموشی بالخصوص دنیائے عرب کی اسرائیل نواز اور فلسطین دشمن پالیسی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ آج فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت صرف ایران کر رہا ہے، جبکہ دیگر مسلم ممالک فلسطینی اور کشمیری عوام کی حمایت تو کیا ظالم اور قصائی مودی کے گلے میں ہار جبکہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے لئے سفارتکاری مہم چلا رہے ہیں۔ علامہ حسینی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یمن جیسے مفلوک الحال اور انتہائی غریب مسلم ملک کے خلاف جارحیت کیلئے تو سعودی عرب 42 ممالک کا اتحاد تشکیل دیتا ہے جبکہ اسرائیل کے خلاف جنگ تو کیا ایک لفظ تک بول نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کے خلاف وہ لشکر تشکیل دیتا تو وہ عالم اسلام میں شیعہ سنی کا متفقہ ہیرو بن جاتا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا بلکہ یہ ہمیشہ اپنے آقاؤں امریکہ اور اسرائیل کی زبان بولتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہل تشیع کو یاعلی کہنے پر کافر قرار دینے والا سعودی عرب خود اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن امریکہ سے مدد مانگنے پر شرم تک محسوس نہیں کرتا۔ علامہ عابد حسین الحسینی نے کہا کہ سول انتظامیہ نیز ایف سی نے اپنی پوری تاریخ میں طوری بنگش اقوام کے حوالے سے کبھی انصاف سے کام نہیں لیا۔ ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے، انہوں نے ہمیشہ ہمیں ہی انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شورکی امام بارگاہ کے علاوہ زنانہ امام بارگاہ نیز اکثر دھماکوں کے پیچھے سول انتظامیہ اور ایف سی کے بعض اہم افراد کا ہاتھ رہا ہے، جبکہ فوج نے اگرچہ ہمارے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی ہے۔ تاہم انہوں نے کبھی ہم پر ظلم بھی نہیں کیا ہے۔ ہماری تمام تر توکل اور بھروسہ خدا کی ذات، جبکہ امید چہاردہ معصومین کی ہستیوں سے وابستہ ہے۔ تاہم پاک فوج کو بھی ہم امید کی ایک کرن تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور ہمارے تمام تر متنازعہ مسائل کو کاغذات مال اور امثلہ جات کی روشنی میں فوری طور حل کرائیں۔

سابق صدر مولانا منیر حسین جعفری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قرارداد کی شکل میں سولہ نکات پر مشتمل مندرجہ ذیل قومی مطالبات پیش کئے۔
1۔ بیت المقدس کے حوالے سے اسرائیل کی جارحیت، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مکمل پشت پناہی نیز بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے لئے سفارتکاری مہم کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔
2۔ کشمیر نیز بھارت میں موجود مسلمانوں کے حوالے سے مودی قصاب کی ظالمانہ پالیسی کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس ظلم پر عالم اسلام کی خاموشی کے ساتھ اپنے حکمرانوں کی مصلحت آمیز پالیسی اور خاموشی کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
3۔ عراق، افغانستان، یمن، شام، لبنان بلکہ دنیا بھر میں امریکہ کی مداخلت اور جارحیت کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔
4۔ شورکی امام باگاہ دھماکے کے ملزمان بشمول ان افراد کے جنہوں نے شہید موذن کو مختلف طریقوں سے دھمکیاں دے رکھی تھیں، کو فوراً گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، ورنہ ہم قومی سطح پر ان کے خلاف احتجاج کریں گے۔

5۔ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور دینی مقامات کا احترام اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت پاراچنار میں اہل سنت برادران کے دینی مراکز کا قومی سطح پر تحفظ ہے۔ تاہم بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صدہ میں ہماری مساجد اور امام بارگاہ کی حفاظت تو کیا، انہیں غلاظت کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ صدہ میں امام بارگاہ کی تعمیر پر فوراً کام شروع کرکے حکومت اپنی ذمہ داری کا ثبوت فراہم کرے۔
6۔ بالش خیل سمیت تمام شاملاتی زمینوں کے حوالے سے مسائل کا حل موجودہ انتظامیہ کے پاس موجود ہے، مگر وہ جان بوجھ کر اسے حل کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ ان تمام مسائل کو کاغذات مال کی روشنی میں فوری طور پر حل کیا جائے، ورنہ مقامی انتظامیہ کی جانب داری کے خلاف حکام بالا کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔ 
7۔ پاراچنار ضلعی ہیڈکوارٹر ہے۔ لہٰذا ہر محکمہ کا ہیڈ آفس یہاں ہونا چاہیئے۔ حال ہی میں ریسکیو کا مین آفس صدہ میں کھولا جاچکا ہے، جو کہ تعصب پر مبنی اقدام ہے۔ اگر اسے فوری طور پر پاراچنار شفٹ نہ کیا گیا تو متعلقہ ادارے نیز اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف ہم فوری طور پر حکام بالا سے رجوع کریں گے۔

8۔ کنج علی زئی، بوشھرہ، نری میلہ، لنڈیوان، گرام نیز پیواڑ سے لیکر شابک تک تمام زمینوں اور پہاڑوں کے مسائل ریونیو ریکارڈ کے مطابق فوراً حل کرائے جائیں۔
9۔ محکمہ ایجوکیشن، محکمہ مال، عدالت، لیوی فورس، ایف سی اور فوج وغیرہ میں بھرتیوں کے دوران میرٹ کی دھجیاں اڑا کر طوری بنگش اقوام کو نہایت تعصب کا نشانہ بنا کر دیگر نان لوکل قبائل کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے۔
10۔ محکمہ ایجوکیشن میں ایٹا کے توسط سے تمام اضلاع میں کئی ماہ قبل ہی تقرریاں ہوچکی ہیں، مگر ڈسٹرکٹ کرم میں متعلقہ محکمہ کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے تقرریاں نعطل کا شکار ہیں۔ چنانچہ دوسرے اضلاع کی طرز پر یہاں بھی جلد از جلد تقرریاں کرائی جائیں۔ 
11۔ حالیہ SNE سینکشن میں چار ہاسٹلز بمقام انگوری، تری منگل، غوز گڑھی اور بوشہرہ کے ہائی سکول کو دینا دراصل ایجوکیشن آفس کی نااہلی اور کھلم کھلا تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا ان میں سے کوئی سے تین کا Nomination شلوزان، کڑمان اور زیڑان میں کراکر میرٹ اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
12۔ حالیہ کلاس فور تعیناتی میں افغان شہریت کی حامل خاتون کی تعیناتی کی بجائے بحکم عدالت پاراچنار کی رہائشی کسی متبادل خاتون کو تعینات کیا جائے۔
13۔ تمام فوت شدہ ملازمین کے بقایاجات وفات شدہ افراد کے مخصوص کوٹہ میں ان کے بچوں کو فوراً تعینات کیا جائے۔

14۔ کرم ملیشیاء کے پاس 1892ء سے 4 اہم ذمہ داریاں تھیں۔ (کور BQ، کور راشن NCO اور IHNCO، JCOS میس انچارج) حال ہی میں ان سے یہ چارج لیا گیا ہے۔ یہ روایت اور قومی سطح پر قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کا ایف سی پر سے مکمل طور پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔
15۔ مختلف مواقع پر حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاراچنار میں میڈیکل کالج اور ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے اعلانات ہوکر عوام کو امید دلائی گئی، تاہم اس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ لہذا حکومت میڈیکل کالج اور ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے فوری احکامات جاری کرکے اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ نیز پاراچنار DHQ ہسپتال اور اس میں موجود ٹراما سنٹر اور دیہات میں موجود BHUز میں سٹاف کی کمی فوری طور پر پوری کی جائے۔
16۔ ضلع کرم میں بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ کے طویل ترین دورانیے کو ختم کیا جائے۔ نیز پاراچنار شہر کی نکاسی آب، شہر کی صفائی اور پینے کے پانی کی ترسیل کیلئے مستقل بنیادوں پر بندوبست کرتے ہوئے شہر کو گونا گوں مسائل اور بیماریوں سے محفوظ بنایا جائے۔ فقہ جعفری کے مطابق وکلاء، قضات اور تجربہ کار افراد کو پاراچنار ہی سے معین اور بھرتی کریں۔ پاراچنار سرزمین پر قابل، اہل علم حضرات موجود ہیں، جو کہ بہترین طریقے سے مسائل کو حل کرسکتے ہیں، دیگر صوبوں کی طرح اس سرزمیں کے علماء کو بھی یہ حق دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 864380
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش