0
Saturday 23 May 2020 16:20

یوم القدس، اذانِ بلالی

یوم القدس، اذانِ بلالی
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

اسلام مکمل دین ہے، فطرت انسان کے تقاضوں کے عین مطابق۔ امام خمینیؒ نے استکباری و استعماری قوتوں کو چیلنج کیا اور پوری عالمی اسلامی عادلانہ مہدوی معاشرے کے خواب کو حقیقت سے قریب تر کر دیا۔ مسلم دنیا کے ہر خطے میں ایسے گروہ ابھرے جو دل و جان سے روح اللہ خمینیؒ کے فدا کار کے طور پر فعال ہوئے۔ عملی طور پر ایسی قوت ظہور پذیر ہوئی، جو قیام امام زمانہ علیہ السلام کی بنیادیں فراہم کر رہی ہے۔ بے بہا خارجی رکاوٹیں کھڑی ہوئی، موجود ہیں اور رہیں گئیں، لیکن امام خمینیؒ کے وجود کی برکت سے اسلام حقیقی کی روح کے مطابق یہ عمل رکا نہیں، مزید پھیلا، وسعت پذیر ہوا اور مستحکم ہو رہا ہے۔ امام خمینیؒ نے یوم القدس کا اعلان کیا تو آپؒ کی اسلامی تحریک کی وسعت اور گہرائیاں نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔

بجا طور پر کہا گیا ہے کہ بالخصوص اسلام اور اسلامی بیداری کے نام پر دنیا میں پہلے سے موجود تحریکوں سمیت دین کی غلط تعبیروں، افراد کی عدم آگاہی یا دیگر عوامل کی وجہ سے مذہبی اور دینی حوالوں کیساتھ گروہ موجود تھے، خارجی طور پر رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں، استکباری طاقتیں، تکفیری گروہوں کی طرح۔ لیکن سرعت عمل، سرعت حرکت، اسلامی نہضت کا تقاضا ہے اور اس کی ضرورت ہے کہ توانائیاں ضائع نہ ہوں، کچھ ایسے کام بھی ہوسکتے ہیں، جن کی وجہ سے توانائی ضائع ہوتی ہے، ترک کرنا ضروری ہوتے ہیں، تاکہ تحریک تیز ہو جائے۔ ان خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے امام خمینیؒ اور رہبر معظم کے حسب فرمان اصول سمجھا جا سکتا ہے کہ خطروں اور تہدیدات کو فرصتوں میں بدل دیا جائے، یعنی جو کام دشمن روکنے کیلئے کرتا ہے، اسی کام سے اپنا کام تیز تر کیسے کرسکتے ہیں۔

اسلام کے نام پر موجودہ تحریکوں، نعروں اور گروہوں کی مثال بھی ایک اذان کی طرح ہے، لیکن حقیقی اذان وہی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پسند ہے، جس میں روح بلالی ہے۔ بقول علامہ سید جواد نقوی حفظ اللہ تعالیٰ رسمی اور رسوماتی اذان کی جگہ اذان بلالی کی ضرورت تھی، جو واجبات، فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائے۔ اگر عرب مناطق میں فلسطین کے حوالے سے ہونیوالی پیش رفت کو سامنے رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے۔ جیسے عرب حکمران جمال عبدالناصر اور فلسطینی رہنماء یاسر عرفات نے فلسطین کیلئے طویل جنگ لڑی، اسی طرح لیلیٰ خالد نامی افسانوی کردار کے حامل افراد بھی رہے۔ اسی طرح کئی گروپ بھی لڑتے رہے، یہ گروہ تھے، جو امام خمینیؒ کی سرکردگی میں جاری نہضت کا حصہ نہیں تھے بلکہ عرب حکمرانوں، ریاستوں اور لیڈروں کے زیر سایہ تھے۔ پس امام خمینیؒ کا یوم القدس کا اعلان اذانِ بلالی ہے۔

یہ فلسطینی گروہ پہلے اسرائیل کیخلاف کھڑے ہوئے، لیکن اس سے پہلے کہ اسرائیل کیخلاف مقصد کو حاصل کرتے، یہ ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے، افغانستان میں بھی ایسا ہی ہوا، کشمیر میں بھی، فلسطینی تنظیموں کو عرب ریاستیں اور حکمران بھرپور ڈالر، ریال، اسلحہ، امکانات، چھاونیاں اور ائیرپورٹ تک کی سہولیات دیتے تھے، ان ممالک نے اسرائیل کیخلاف باقاعدہ فوج کشی کی، چھاپہ مار جنگ کیلئے جہادی گروپ بنائے، لیکن فلسطین کا ایک انچ بھی آزاد نہیں کروایا جا سکا، بالآخر عرب حکمرانوں اور تنظیموں نے اسرائیل سے معاہدے کر لیے۔ دوسری طرف امام خمینیؒ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے پر بہت حساس تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے تہران میں اسرائیل کا سفارت خانہ تھا، ایرانی پولیس کو اسرائیل میں تربیت دی جاتی تھی، اسی ایران کے ماہرین اسرائیلی فورسز کو تربیت اور مشاورت فراہم کرتے تھے۔

لیکن اس وقت بھی امام خمینیؒ نے نجف میں فتویٰ دیا تھا کہ ہر شخص اپنا ایک سوم خمس فلسطین کی آزادی کیلئے صرف کرسکتا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے انقلاب کیلئے جاری تحریک کا اصلی ہدف انقلاب اسلامی کی کامیابی ہی تھا، لیکن امامِؒ راحل فلسطین کو کبھی نہیں بھولے، بے شک اہم مسئلہ انقلاب کی کامیابی ہی تھا، اسلامی جمہوری جونہی قائم ہوا تو امام خمینیؒ نے فلسطین کیلئے اقدامات اٹھائے، انقلاب کی کامیابی کے بعد یاسر عرفات بھی آیا اور ضیاء الحق بھی امام خمینیؒ کے پاس آیا، لیکن امام خمینیؒ نے اہمیت نہیں دی، حالانکہ پاکستانی مسلح افواج نے انقلاب کے بعد بھی ضیاء الحق کے دور میں پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے کیڈٹ افسروں کو فوجی تربیت دی، اسی سلسلے میں جنرل قاسم سلیمانی شہید کی جنرل بیگ کیساتھ تصاویر بھی آئی ہیں۔

متعدد حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور اس کے بعد پہلے سے موجود گروہوں سے متعلق امام خمینیؒ کو معلوم تھا کہ یہ گروپ فلسطین آزاد نہیں کروا سکتے، کیونکہ ان میں اتنی طاقت اور توانائی نہیں ہے۔ اس وقت آپؒ نے اپنی تحریک کو اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور کامیابی کے بعد روکا نہیں بلکہ قدس کو عالمی سطح پر پورے عالم اسلام میں منانے کا اعلان کیا۔ اس طرح دراصل امام خمینیؒ نے فلسطین کو عالمی اور اسلامی مسئلہ بنایا، ورنہ عربوں نے اسے عرب قضیہ بنا رکھا تھا۔ دوسرا امام ِؒ راحل نے اسے نہضت سے منسلک کیا اور تنظیموں اور گروپوں کی حد تک محدود نہیں کیا، بلکہ عالم اسلام کے عوام کے سپرد کیا، تاکہ اس طرح پوری دنیا کے عوام بیدار ہوں، اس کی ایک مثال انتفاضہ ہے، جو کسی گروہ، تنظیم یا لیڈر تک محدود نہیں۔

بے شک یہ درست ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس روش کو اپنانے کی ضرورت ہے، اس کا شعور دینے اور عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عرب خائن حکمرانوں نے ایسا جال بچھایا کہ مقدور بھر کوششوں کے باوجود امام خمینیؒ کی تحریک کی حمایت کرنیوالے اولین دستوں، شخصیات اور گروہوں کے علاوہ بالعموم پاکستانی رائے عامہ فلسطین کاز کے حوالے عرب شیوخ اور اسرائیلی لابی کی تبلیغات سے متاثر ہے۔ اب جبکہ سعودی لابی کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے تو امام خمینیؒ کے خط پہ چلنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اس چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے، پہلے کی طرح فلسطین کی آزادی کیلئے کوشششوں اور ان کی حمایت میں قدم بڑھاتے رہیں۔
خبر کا کوڈ : 864461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش