0
Tuesday 26 May 2020 10:23

امام خمینی اور وحدت اسلامی(1)

امام خمینی اور وحدت اسلامی(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کی شخصیت جہاں ایک فقیہ، مرجع، عارف اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے، وہاں آپ کو عالم اسلام میں اتحاد و وحدت کا ایک عظیم داعی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ آپ نے فرقہ واریت اور تفرقہ انگیزی کے ماحول میں اتحاد و وحدت کا نعرہ بلند کرکے عالم اسلام کو قرآن و سنت کے وحدت کے پیغام کی طرف متوجہ کیا ہے۔ امام خمینی کی نگاہ میں اسلامی وحدت کے دو مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ثقافتی و عقیدتی میدانوں میں اتحاد کا ماحول تیار کیا جائے اور دوسرے مرحلے میں سیاسی و اجتماعی میدان میں اتحاد پیدا کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ امام خمینی نے اتحاد و وحدت کے ماحول میں اسلام کو حقیقی و محمدی اسلام اور امریکی اسلام میں تقسیم کیا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ حقیقی اسلام کے پیروکار وحدت کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جبکہ امریکی اسلام کے پیروکار انتشار اور تفرقے پر یقین رکھتے ہیں۔

امام خمینی کی نگاہ میں موجودہ اسلام کو بہت ساری مشکلات اور مصائب کو سامنا ہے، لہذا اس کے بارے میں سرسری اور عارضی سوچ کی بجائے بنیادی فکر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی اور مسائل کو گہرائی سے دیکھے اور پرکھے بنا انجام نہیں پا سکتا۔ اس وقت عالم اسلام کو کئی منفی عوامل کا سامنا ہے، جن کی وجہ سے دین اسلام کو مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لیے ایک دشوار گزار راستے سے گزرنا پڑے گا۔ آج عالم اسلام سامراجی سازشوں کی وجہ سے نظریاتی، ثقافتی اور عقیدتی حوالے سے انحطاط کا شکار ہے۔ سامراجی طاقتوں نے اسلام کی حقیقی شناخت، آسمانی تعلیمات اور اقدار کو ختم کرنے یا مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ سلسلہ ماضی میں بھی تھا اور اب بھی جاری ہے۔ سامراجی طاقتوں نے نہ صرف فکری و عقیدتی لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کو کمزور و محروم کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی مسلمان ممالک اور ان کے قدرتی وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔

مذکورہ مسائل اور چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ امت مسلمہ تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ دین اسلام کے دفاع، ترویج اور استحکام کے لیے اقدامات انجام دے۔ عالم اسلام اور امت مسلمہ کو ایک متفقہ اور مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں تمام رکاوٹوں کو پلاننگ کے ساتھ عبور کرنا ہوگا۔ سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے سے روکنے کے لیے لڑائو اور حکومت کرو، کی شیطانی پالیسی پر عمل کیا ہے اور مسلمانوں کے اندر اختلافات اور تفرقے کی آگ کو بھڑکایا ہے۔ آج کے دور میں ماضی سے بھی زیادہ اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی صورت میں اکٹھے ہو اور مشترکات کو یاد رکھتے ہوئے فروعی اختلافات سے صرف نظر کرے۔ بانی انقلاب امام خمینی بھی اسی نظریئے کے قائل تھے، وہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان مشترکات کو وحدت و اتحاد کے اساس قرار ہوئے اتحاد بین المسلمین کے عملی ہونے پر تاکید فرماتے تھے۔

امام خمینی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت بڑھانے کے لیے مختلف کوششوں کی ترغیب دلاتے اور فرماتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے قیام اور باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے علماء، دانشوروں اور معاشرے کی اہم شخصیات کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے قرآنی حکم کو عملی جامہ پہنائیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں مسلمان حکمرانوں اور امت مسلمہ نے اسلام کے حیات بخش پیغام کو سمجھنے میں کوتاہی کی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان تقرفہ اور انتشار پیدا ہوا ہے۔ آپ کی نگاہ میں اگر امت مسلمہ اور اسلامی حکمرانوں نے اسلام و آزادی اور استقلال کے حقیقی تین نکاتی فارمولے یا اسٹریٹجی کو صحیح معنوں میں درک کر لیا تو اتحاد بین المسلمین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امام خمینی اس تین نکاتی فارمولے یا مفاہیم کو سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے دینی مدارس اور علماء کو متوجہ کرتے ہیں کہ وہ پہلے مرحلے میں اسلام کے صحیح مفہوم اور اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو عوام تک پہنچائیں اور ان کو باور کرائیں کہ حقیقی محمدی اسلام امت مسلمہ کی بقا کا ضامن ہے اور تمام مسلمانوں کو رنگ و نسل اور زبان و قبیلے، علاقائی تعصبات کو نظرانداز کرکے اتحاد و وحدت اور پرچم توحید کے سائے میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔

امام خمینی کے افکار و نظریات کی روشنی میں حقیقی اور محمدی اسلام میں جامعیت، جذابیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی تمام تر صفات موجود ہیں۔ اگر حققیی اسلام کو معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تو اختلافات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وحدت اسلامی کے احیاء کا ہدف آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر حقیقی محمدی اسلام کو اس کی حقیقی اقدار و روایات کے ساتھ پیش کیا جائے تو امت مسلمہ اور عالم اسلام کو عزت و عظمت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ امام خمینی نے وحدت اسلامی کے لیے جن تین نکات کا اعلان کیا، اس میں دوسرا نکتہ آزادی ہے۔ مسلمان اگر آزادی کی حقیقی دولت سے مالا مال ہوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی ذہنی، فکری، معاشی اور سیاسی پابندیوں سے آزاد ہو کر صرف اور صرف دین اسلام کی تعلیمات پر عملدرآمد کے حوالے سے آزاد ہوں تو وہ نہ صرف اپنے اپنے ممالک میں صحیح اسلامی حکومت کا قیام ممکن بنا سکتے ہیں، بلکہ اس حکومت کے سائے میں امت اسلامیہ کے اتحاد کو ممکن بناتے ہوئے طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔

اسلامی نطریات پر جب حکومت بنے گی تو اس میں آمریت اور استبداد کا شائبہ تک نہ ہوگا۔ ایسی حکومت نہ صرف مسالک اور مکاتب کے درمیان اختلافات کی خلیج کو دور کرنے میں مدد و معاون ثابت ہوگی بلکہ عوام کے تمام طبقات کے درمیان اخوت و بھائی چارے کا ماحول پیدا کرے گی۔ آج جن ممالک میں ڈکٹیر شپ، شہنشاہی نظام یا آمرانہ حکومتیں برسر اقتدار ہیں، وہاں وہ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں اور ہمیشہ ان سامراجی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہیں، جو ان کے اقتدار کی محافظ و ضامن ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان استبدادی حکمرانوں کو اپنے عوام کی بجائے سامراجی طاقت پر بھروسہ ہوتا ہے۔ لہذا وہ آزادی و خود مختاری کے ساتھ فیصلے نہیں کر پاتیں اور یوں عوام پر اپنا اقتدار مضبوط اور لمبا کرنے کے لیے اختلافات اور تفرقے کا سہارا لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں عوام میں اختلافات و تفرقہ بڑھتا ہے اور اس تفرقے سے استبدادی حکمران فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار کو طول دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 864795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش