0
Thursday 28 May 2020 11:02

امام خمینی اور وحدت اسلامی(2)

امام خمینی اور وحدت اسلامی(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

اگر صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو قرآنی تعلیمات طاغوت کے خلاف قیام کی دعوت دیتی ہیں۔ امام خمینی انہیں قرآنی اصولوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مسلمان ممالک میں طاغوتی اور غیر عادلانہ حکومتوں کے خلاف قیام تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ممالک میں عوام مخالف جابر و ظالم حکومتی اداروں کی جگہ پر عوام دوست اور عوام کی خدمت کرنے والے ادارے بننے چاہیں اور انہیں اسلامی قوانین کے مطابق چلانا چاہیئے، تاکہ وہاں بتدریج اسلامی حکومت کا قیام ممکن ہوسکے۔ امام خمینی کی اتحاد بین المسلمین کی حکمت عملی کا تیسرا اہم نکتہ خود مختاری ہے۔ امام خمینی کی نگاہ میں مسلمانوں میں خود آگاہی، بیداری اور خود مختاری کا جذبہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں اور مسلم معاشروں کو مغربی اور مشرقی طاقتوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے امت مسلمہ میں بیداری، ہوشیاری اور اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لینے کا تصور پیدا ہونا چاہیئے۔

امام خمینی بڑی وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خدا نے کسی کافر کو مسلمانوں پر تسلط کا اختیار نہیں دیا ہے اور مسلمانوں کو اس تسلط کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیئے۔ امام خمینی کی نگاہ میں خود مختاری دو طرح کی ہے، ایک اندرونی اور ایک بیرونی۔ اندرونی خود مختاری کے بغیر عالمی اور بیرونی خود مختاری کے مقام پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ امام خمینی کی نگاہ میں مسلمانوں کو پہلے قدم کے طور پر اندرونی استقلال اور خود مختاری کی طرف بڑھانا ہوگا اور اس کے لیے دین اسلام کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اندرونی استقلال و خود مختاری کے حصول کے لیے دین اسلام کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد بین الاقوامی اور بیرونی خود مختاری کے لیے عالمی سامراجی طاقتوں سے فکری، نظریاتی، ثقافتی، نظامی اور سیاسی وابستگیوں کو ختم کرنا ہوگا۔

بیرونی استقلال و خود مختاری کے لیے سامراج کے مقابلے میں قیام کرنا ہوگا اور دنیا کے تمام محروموں اور مستضعفوں کے ساتھ مل کر مستکبرین اور تسلط پسند طاقتوں کے تسلط کو ختم کرنا ہوگا۔ امام خمینی کی نگاہ میں اندرونی خود مختاری کے حصول کے بغیر بیرونی خود مختاری حاصل نہیں کی جا سکتی۔ امام خمینی کی نگاہ میں وحدت مسلمین کے حصول کے لیے علماء، مبلغین اور دانشوروں کی طرف سے تبلیغ کے باقاعدہ مراکز بنائے جائیں اور علماء اور دانشوروں کے ذریعے امت مسلمہ کے اندر اتحاد و وحدت کی افادیت کو نمایاں کیا جائے۔ امام خمینی کی نگاہ میں علماء اور دانشوروں کو اتحاد اسلامی کے بلند ہدف تک پہنچنے کے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانا چاہیئے۔ اسلام نے مسلمانوں کے لیے بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں، جن کے ذریعے عوام کی فکری اور نظریاتی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے اور ان میں اتحاد بین المسلمین کی شعوری کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اسلام نے نماز جمعہ، نماز جماعت، حج، نماز عید وغیرہ جیسی عبادات کے مواقع فراہم کیے ہیں، جہان مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنی عبادات کو انجام دیتے ہیں۔ ان مواقع سے علماء اور دانشور بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔ مساجد اور عبادت گاہیں اس کے لیے مرکز کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ امام خمینی نماز جمعہ اور حج کے عظیم اجتماعات کو صرف عبادی امور کی انجام دہی تک محدود نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ ان عبادات کو اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کا منفرد دینی پلیٹ فارم قرار دیتے تھے۔ آپ اسی طرح مختلف دینی اجتماعات اور ان میں عوامی شرکت کو اتحاد بین المسلمین کا پیغام پہنچانے کا بہترین موقع قرار دیتے تھے۔ اس حوالے سے امام خمینی کی جن عالمی کوششوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے، وہ امام خمینی کی طرف سے عالمی یوم القدس اور ہفتہ وحدت منانے کا اعلان ہے۔ یہ دونوں اجتماعات عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت بڑھانے کے بہترین وسیلہ اور ذریعہ بن سکتے ہیں۔

عالمی سطح پر ایک بین الاقوامی جماعت تشکیل دینے کی حکمت عملی امام خمینی کے افکار و نظریات میں شامل تھی۔ ایسی عالمی تنظیم جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت پیدا کرنے کا باعث بنے۔ آپ کے افکار و نظریات مین حزب اللہ یعنی عالمی سطح پر اللہ کی جماعت اور محروموں کی عالمی جماعت کا تصور ملتا ہے۔ آپ ایک عالمی حزب اللہ کی تشکیل کو اسلام کی موجودہ بحرانی صورتحال کا ایک حل قرار دیتے تھے، وہ ایک ایسی عالمی تنظیم کی تشکیل کی خواہش رکھتے تھے، جس میں نہ صرف تمام عالم اسلام کے مسلمان شامل ہوں بلکہ تمام دنیا کے محروم اور مستضعف اس جماعت کا حصہ ہوں اور یہ جماعت دنیا کے تمام محروموں کے لیے آواز اٹھائے۔ آپ اس حوالے سے فرماتے تھے "مجھے امید ہے کہ عالمی سطح پر ایک بین الاقوامی تنظیم "محروموں کی جماعت" کے نام سے تشکیل پائے گی اور تمام مستضعفین اور محروم اس میں شریک ہوں اور اس کا حصہ بنیں۔ یہ عالمی تنظیم محروموں کے راستے میں آنے والی مشکلات کو دور کرے اور یہ عالمی تنظیم مشرق و مغرب کی استکباری طاقتوں اور مغرب و مشرق کے غارتگروں کے خلاف قیام کرے اور مستکبرین کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ محروموں اور مستضعفین پر ظلم و ستم روا رکھیں اور ان کا استحصال کریں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 865007
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش