0
Wednesday 27 May 2020 21:52

علامہ شیخ غلام مرتضیٰ قاضی (قدس سرہ) کی شخصیت اور دینی خدمات کا مختصر تعارف

علامہ شیخ غلام مرتضیٰ قاضی (قدس سرہ) کی شخصیت اور دینی خدمات کا مختصر تعارف
تحریر: محمد حسن جمالی

بلا شبہ مرحوم و مغفور حجۃ الاسلام علامہ شیخ غلام مرتضیٰ قاضی رحمۃ اللہ علیہ ایک عہد آفریں اور تاریخ ساز شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت روحانی پیشوا، دلسوز مربی، قابل رشک مدیر، مایہ ناز مدرس، بہترین مشاور، معاملہ فہمی کے ماہر، اتحاد بین المسلمین کے داعی، مخلص خطیب، حق گو، شجاع اور محب وطن صلح جو رہنما تھے۔ دیانت، شرافت، ایثار، عجز و انکسار جیسی اخلاقی صفات آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، وہ عظیم شخصیت ہونے کے باوجود تکبر و غرور سے کوسوں دور تھے۔ ہر چھوٹے بڑے، امیر غریب کی تعظیم اور احترام ان کی عادت تھی۔ جہدِ مسلسل، دینی درد، شخصیت و کردار سازی، اصلاحِ معاشرہ، پاکیزہ افکار و اعمال کی تبلیغ ان کی شخصیت کے نہایت شگفتہ اور دل آویز پہلو ہیں۔ انہوں نے پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم و تربیت اور وعظ و ارشاد میں گذاری۔ میری نظر میں جو عمدہ خوبی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ تا دم مرگ ان کا مطیع استاد ہونا ہے۔

مرحوم قاضی، محسن ملت علامہ شیخ محسن نجفی حفظہ اللہ کے قابل افتخار شاگردوں میں سے تھے اور طالب علمی کے زمانے سے لیکر داعی اجل کو لبیک کہنے تک وہ شیخ صاحب کے فرمانبردار رہے، وہ اپنے استاد کی ہدایت اور راہنمائی کے مطابق پورے اخلاص سے زندگی بھر دینی خدمات میں مصروف رہے۔ یقیناً ان کی یہ برجستہ صفت ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔ ہم صنف علماء سے تعلق رکھنے والے  ایسے بہت سوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں، جو کچھ پڑھ لکھ کر جب کسی علمی منزل پر پہنچتے ہیں، تدریس یا خطابت کے میدان جب تھوڑی مہارت حاصل ہوتی ہے اور معاشرہ میں جب وہ ذرا شہرت پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ فقط وہ اپنے اساتذہ کی محنتوں اور زحمتوں کو بھول جاتے ہیں، بلکہ وہ ان کی مخالفت کرنے میں بھی حیا محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو روشن فکر سمجھتے ہوئے اپنے اساتذہ کی خدمات کو یکسر طور پر نظر انداز کرتے ہیں، بلکہ بعض کو ہم نے یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں؟ وہ دینی خدمات تھوڑی کر رہے ہیں، وہ تو مدارس کے نام پر اپنی دکان چمکا رہے ہیں، وغیرہ۔۔۔

یقیناً یہ بڑا المیہ ہے، در حالیکہ ہر باشعور اور فکری تربیت کی نعمت سے مالا مال شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اساتذہ کرام نہ فقط شاگردوں کے مربی ہیں، بلکہ وہ تو ان کے روحانی باپ بھی ہیں، جن کی عظمت اور مقام بہت بلند ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان عالم دھر ہی کیوں نہ بن جائے، اگر اس کے دل میں اپنے اساتذہ کا احترام نہ ہو اس کا زوال قطعی ہے۔ مرحوم علامہ قاضی احترام استاد سمیت معنوی اعلیٰ صفات کے حامل ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی مختصر زندگی میں ایسی دینی خدمات سر انجام دینے کی توفیق دی جو قابل رشک ہیں۔ انہوں نے 1959ء میں ضلع راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں آنکھ کھولی اور میٹرک کے بعد ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لے گئے، جس کے  کچھ عرصہ بعد انہوں نے جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں داخلہ لیا، جہاں بہت جلد ان کا شمار ہونہار اور باصلاحیت طلبہ میں ہونے لگا۔ اسی دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور اپنے اُستاد محترم کے مشورے پر مزید تعلیم کے لیے قم (ایران) تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔

جس کے بعد 1988ء میں وہ پاکستان تشریف لائے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت (چنیوٹ) میں پرنسپل شپ کی مسئولیت سنبھالی، جسے آپ نے تا دمِ آخر نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے نبھایا، یہاں تک کہ 31 مارچ 2020ء کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ مرحوم قاضی زندگی بھر اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ رہے۔ فرامین معصومین کے مطابق علماء حق انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، لہذا انہیں انبیاء کی سیرت، کردار، گفتار، صفات نیک و ۔۔ کا خوگر ہونا ناگزیر ہیں۔ صنف روحانیت کی جہاں فضیلت اور مقام بلند ہے، وہیں ان کی ذمہ داریاں بھی دوسرے طبقے کی نسبت سنگین ہیں۔ علماء دین درحقیقت قوم و ملت کی ہدایت کا کام سرانجام دینے پر مامور ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں لوگوں کی دینی مشکلات اور مسائل کو حل کرکے انہیں گمراہی کے راستے سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح  دینی درسگاہ سنبھال کر قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے بعد اب وہ ایک فرد نہیں، بلکہ پوری قوم کی آواز ہے، قوم کے دینی اور اجتماعی دردوں کا معالج ہے، وہ پوری امانت داری اور دیانت داری سے قوم کے بچوں کو تعلیم اور تربیت سے مزین کرکے انہیں مفید انسان بناکر انکے والدین کے حوالے کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس سنگین ذمہ داری کو نبھا کر اپنا شانہ ہلکا کرنا، تعلیمی ذمہ داران کے لئے تب ممکن ہے، وہ ذیلی امور پر باور قلبی پیدا کریں۔ اول: احساس مسؤلیت، یعنی خود کو مسئولیت سے مبرا نہ سمجهیں، بلکہ ہر کوئی ہمیشہ اس بات پر دل سے یقین رکھے کہ میں ایک ذمہ دار شخص ہوں، پوری قوم کا مسئول ہوں، قیامت کے دن مجھ سے پوچھا جائے گا اور وہاں مجھے جواب دینا ہے، دنیوی زندگی فنا پذیر ہے، لیکن آخرت کی زندگی جاودانی اور لازوال ہے۔ دوم: ہمیشہ اپنے انفرادی مفادات پر قومی دینی و اجتماعی مفادات کو مقدم رکھنے کی عادت کریں، کبھی بھی ذاتی مفادات پر دینی اور اجتماعی مفادات کو قربان نہ کریں۔

سوم: اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اس کو دوسروں کے لئے بھی پسند کریں اور جن چیزوں کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے، ان کو دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کریں۔ چہارم: اس پر ایمان رکھیں کہ ساری بشریت ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، ہم سب کا مالک حقیقی خدا ہے، اس ارض خدا پر سب کو جینے کا حق ہے امیر ہو یا غریب، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ پنجم: لسانی، علاقائی، خاندانی تعصب ایک منفور شے ہے، جس سے اپنے آپ کو دور رکھنا بے حد ضروری ہےـ ششم: دین مقدس اسلام میں برتری اور فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیزگاری ہے، اس کے علاوہ برتری کا کوئی معیار نہیں۔ ہفتم: غرور و تکبر شیطان کی ممتاز صفات ہیں، ان سے حتی الامکان پرہیز کرنا بہت ضروری ہے۔ ہشتم: انسان کو کرسی، منصب، مال و دولت خدا آزمائش کے لئے عطا کرتا ہے، بدون تردید علامہ قاضی مرحوم نے اس حساس ذمہ داری کو قبول کرکے اسے بوجہ احسن انداز میں نبھانے میں کردار ادا کیاـ آپ اپنی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں بہت سارے اداروں کو ملت کے لئے سرمایہ اور اپنے لئے صدقہ جاریہ بنانے میں کامیاب ہوگئےـ

راقم نے فیصل آباد میں اپنی تعلیمی زندگی کے دوران مرحوم علامہ قاضی کی برجستہ صفات اور خصوصیات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ان کی چند ایک خدمات سے آگاہ تھا، لیکن یہ مضمون کو لکھنے کے لئے جب اپنے صمیمی دوست مرحوم کے فرزند ارجمند علامہ شیخ علی رضا قاضی سے استفسار کیا تو انہوں نے مرحوم کی خدمات کے حوالے سے بہت سارے نکات لکھ بیجھے، جن کا لب لباب یہ ہے:
(1) پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ: 
قوم و ملت کے بچوں کو ہنر سکھانے اور انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنانے کے لیے  مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ ہمیشہ فکرمند اور سرگرم عمل رہتے ہیں، چنانچہ 2003ء میں پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی آپ کے اسی مشن کا آئینہ دار ہے، جہاں مختلف شعبہ جات کی ورکشاپس اور ضروری آلات کے ذریعے بچوں کو ہنر مند بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔ اس ادارے سے اب تک 1800 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم مکمل کرکے باعزت روزگار سے وابستہ ہوچکے ہیں، جبکہ حکومت پنجاب کے تعاون سے اب تک 4200 طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات کے شارٹ کورسز مکمل کرنے کے بعد قوم و ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔

(2) کلیۃ اہلبیت:
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی کی مساعی جمیلہ سے 1987ء میں قائم ہوا، یہ مدرسہ  24 کنال رقبے پر محیط ہے، جس کا ایک حصہ طلبہ کے لیے جبکہ دوسرا حصہ دانشگاہ بتول برائے طالبات کے لیے مختص قرار پایا اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور 1988ء میں اس کی مدیریت سنبھالنے کے بعد تادمِ آخر اپنی مسئولیت کو بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ اس مدرسے میں اس وقت 10 اساتذہ کرام کی زیر نگرانی کم و بیش 100 طلبہ اقامت پذیر ہیں، جنہیں حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

(3) تعمیر مساجد پراجیکٹ:
اسلامی معاشرے میں مساجد کے قیام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ متبرک مقام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام و منزلت کا حامل ہے، جبکہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اپنے تمام دینی و فلاحی اداروں کے قیام میں تعمیر و توسیع مساجد کو ہمیشہ فو قیت دیتے ہیں۔ پس اسی پالیسی کے تحت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں مختلف جگہوں پر مساجد کی تعمیر کو ممکن بنایا، جن میں شہر چنیوٹ کی مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان بھی شامل ہے، جہاں 2000 سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، جبکہ یہ مسجد ادائیگی نماز جمعۃ المبارک سمیت دروس قرآن، محافل و مجالس اور قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مقامات پر 15 مساجد کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، جہاں نماز کے علاوہ قرآن سنٹرز بھی قائم ہیں، جن میں اِن علاقوں کے بچے قرآن اور بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

(4) قرآن سنٹرز:
چینیوٹ کمپلیکس کے اس پراجیکٹ سے 100 سے زائد پیش نماز مربوط ہیں، جو مختلف علاقوں میں 100 قرآن سینٹرز چلا رہے ہیں، جن میں ہزاروں بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآن سنٹرز کے یہ طلبہ وقتاً فوقتاً مقابلہ حسن قرائت اور اسلامی کوئز کے پروگرامز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔

(5) حفظ القرآن ماڈل سکول:
دور حاضر کی آلودہ فضاء میں سانس لینے والی نئی نسل میں قرآن مجید سے دوری معاشرتی زوال کا بنیادی سبب ہے، جسے دور کرنے، قرآن فہمی کا شعور اُجاگر کرنے اور نئی نسل کو قرآن حفظ کرانے کے لیے 2007ء میں حفظ القرآن ماڈل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے میں قرآن مجید حفظ کرانے اور اس کے مفاہیم ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حفاظ کی قابل ذکر تعداد کو چھٹی تا مڈل کلاس کی عصری تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جا رہا ہے۔ تاحال 427 طلبہ حفظ مکمل کرکے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

(6) دانشگاہ بتول:
مومن بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اُن کی عمدہ تربیت کے لیے دانشگاہ بتول کا قیام ایک انقلاب آفریں قدم ہے، 1990ء سے قائم اس ادارے میں دختران ِقوم کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو رہی ہے، جبکہ سینکڑوں بچیاں اب تک فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اسلامی قدروں کو فروغ دے رہی ہیں۔ دانشگاہ بتول میں طالبات کے لیے بہترین صحت مند ماحول اور سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے، جہاں اس وقت 8 خاتون اساتذہ کی زیر نگرانی ایک سو سے زائد طالبات اقامت پذیر ہیں۔

(7) کلیۃ العباس بھوانہ:
بھوانہ جیسے دور دراز علاقے میں اس دینی مدرسے کا قیام 2005ء میں عمل میں لایا گیا، جہاں اس وقت 40 طلبہ اقامت پذیر ہیں، جنہیں دینی و عصری تعلیم دی جا رہی ہے، جبکہ یہ ادارہ بھوانہ اور اس کے گرد و نواح کے عوام کے لیے دینی و شرعی مسائل سے آگاہی کا واحد مرکز ہے۔

(8) دینی مدرسہ برائے طالبات:
پنڈی بھٹیاں میں ایک دینی مدرسہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔
(9) اُسوہ کالج بھوانہ:
چنیوٹ کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بھوانہ میں طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی اس تعلیمی ادارے کا قیام 2018ء میں عمل میں آیا۔ اس وقت اس ادارے میں 350 طلبہ و طالبات کو محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایف اے، ایف ایس سی، آئی سی ایس اور آئی ٹی کی تعلیم دی جا ر ہی ہے۔

(10) خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال:
صحت کی سہولت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر فیصل آباد چنیوٹ مین روڈ پر 50 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولیات سے آراستہ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں 6 مستند ڈاکٹرز کی زیر نگرانی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی سمیت ہر قسم کے آپریشن اور نارمل ڈلیوری کی سہولت موجود ہے۔ اس ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال میں وقتاً فوقتاً مفت میڈیکل  کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جن میں مریضوں کو مفید مشوروں اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔

(11) علی ہسپتال رجوعہ سادات:
رجوعہ سادات میں 4 کنال رقبہ پر مشتمل علی ہسپتال کا قیام علاقے کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس وقت یہاں تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی گائنی، آنکھوں کے علاج اور میڈیکل کے دیگر شعبہ جات  کے ذریعے دکھی انسانیت کی شبانہ روز خدمت کی جا رہی ہے۔
(12) پیرا میڈیکل کالج:
اس ادارے کا شمار پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے بعد چنیوٹ کمپلیکس کے فعال ترین اداروں میں ہوتا ہے، جہاں طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد کو طبی شعبے کی خدمات کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انہیں ڈسپینسر، ٹیکنیشن، لیب ٹیکنیشن اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے، اب تک 250 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر مختلف ہسپتالوں و دیگر اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

(13) فارمیسی کالج:
یہ ادارہ دوا سازی کے میدان میں سرگرم عمل ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ جہاں پاکستان فارمیسی کونسل کے تحت فارمیسی ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کامیاب فرد میڈیکل سٹور کے لیے لائسنس حاصل کرسکتا ہے۔ اب تک 100 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔
(14) نرسنگ کالج:
نرسنگ کالج چنیوٹ کمپلیکس کا ذیلی ادارہ ہے، جہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر (LHV) اور سرٹیفائیڈ نرسنگ اسسٹنٹ (CNA) کے تربیتی کورسز کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔
(15) فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد:
 کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی چینوٹ کے دور افتادہ و پسماندہ علاقوں میں وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں میڈیسن کے علاوہ فری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ ان میڈیکل کیمپس کے علاوہ ان علاقوں کے ہونہار طلبہ کو سکالرشپ، کتب، یونیفارم اور بیوگان کو ماہانہ راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

(16) ورچوئل سب کمپلیکس:
یہ ادارہ جدید برقیاتی تدریس کے آلات سے لیس ہے، جہاں یونیورسٹی سطح کے طلباء کو علوم اداریہ، علوم تجاریہ، اقتصادیات بینکاری، مالیات، ریاضیات، نفسیات کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں بی ایس اور ایم ایس کرنے کی سہولت میسر ہے۔ اس وقت 4200 سے زائد طلبہ و طالبات ڈگری و ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ 450 طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں۔ درج بالا کامیاب اداروں کا قیام اور قومی و ملی سرگرمیوں میں متحرک کردار مفسر قرآن علامہ  شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی محنت و تربیت اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور کے اخلاص عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا علی رضا قاضی کو  اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورے اخلاص سے ان کے دینی مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق دے اور علامہ قاضی مرحوم کی مغفرت فرما کر انہیں جوار ائمہ میں جگہ عنایت فرمائے۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 865132
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش