2
5
Friday 29 May 2020 13:11

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی شہادت کی جھوٹی خبر اور خارجی فکر

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی شہادت کی جھوٹی خبر اور خارجی فکر
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عرب سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی مہم چلائی گئی کہ دیر سعمان میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بیحرمتی کی گئی ہے اور ان کی قبر تک کو اکھاڑ لیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بوجوہ مسلم امہ میں بہت احترام کیا جاتا ہے، ان کے بعض اقدامات کی بہت ہی تحسین کی جاتی ہے۔ عرب سوشل میڈیا سے یہ غیر معروف انگریزی میڈیا میں داخل کی گئی، جہاں سے پاکستانی سوشل میڈیا ورکرز نے اٹھائی اور کل شام تک یہ کافی پھیل چکی تھی۔ جنگ میں بہت سے ناپسندیدہ اقدامات ہوتے ہیں اور سچ پوچھیں تو جنگ اسی لیے قابل نفرت ہے کہ اس میں کیے گئے اکثر اقدامات ناپسندیدہ ہی ہوتے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ یہ لاحقہ لگانا ضروری خیال کیا گیا کہ یہ کام ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی تنظیم نے کیا ہے۔

وطن عزیز کے فرقہ پرستوں نے عوام میں موجود حساسیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ شیعوں نے یہ کیا ہے اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی نے تحقیق کی نہ تو کوشش کی اور نہ ہی اسے ضروری خیال کیا، کیونکہ مدمقابل کے خلاف جھوٹ ثواب سمجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔ ویسے افواہ کے ذریعے ایسے ایسے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، جو اصل واقعات سے بھی حاصل نہیں ہوتے۔ فرقہ واریت ایسا ہتھیار ہے، جو پچھلے کچھ عرصے سے خوارج اور ان کے سرپرست بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ جب زمینی صورتحال ان کے خلاف جانے لگتی ہے تو کوئی ایسا پتہ کھیلتے ہیں، جس سے سادہ لوح مسلمان بہت جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ شام کی عملی صورتحال یہ ہے کہ کرد علاقوں اور ترکی کے بارڈر کے کچھ علاقے کو چھوڑ کر سب اہم شہروں پر شامی افواج کا قبضہ ہوچکا ہے۔

سوفٹ وار کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بے حرمتی  کے غیر تصدیق شدہ واقعہ کا سہارا لیا گیا، جس کی تصدیق نہیں ہوسکی، جو کسی معتبر سائیٹ پر نہیں آیا۔ کچھ لوگ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خوارج ایسے شخص کی قبر کو گرائیں، جسے وہ بظاہر ہیرو سمجھتے ہوں؟ جی خوارج ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسی ہی ایک واردات پاکستان میں بھی کی تھی۔ محرم الحرام کا جلوس جب راجہ بازار پہنچا، وہاں موجود ایک مدرسے کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ جلوس والوں نے مخالف مسلک ہونے کی وجہ سے مدرسہ کو جلا دیا ہے۔ وطن عزیز کے سکیورٹی اداروں نے اس واقعہ پر دن رات کام کیا اور اس واقعہ میں ملوث اصل افراد کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کی پریس کانفرنس سنائی گئی تو عجیب حقائق سامنے آئے کہ خارجی فکر کے لوگوں نے خود مدرسہ پر حملہ کیا، کئی لوگوں کو مارا کہ الزام مخالف مسلک پر لگا سکیں۔ اس سے پاکستان میں فرقہ واریت بڑھے گی، جس سے پاکستانی افواج ان کے خلاف پوری تندی سے آپریشنز نہ کرسکیں گی۔

ویسے تو یہ واقعہ سرے سے مشکوک ہے، اگر اس میں تھوڑی بہت صداقت بھی فرض کی جائے تو بھی یہ انہی خوارج کی کارروائی ہے، جو زمینی طور پر تو شکست کھا چکے ہیں، اب ایسے ہتھکڈوں کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ مزارات بنانے والے ہیں گرانے والے نہیں ہیں۔ تقریباً سو سال پہلے جس فکر نے اصحاب رسولﷺ اور خاندان پیغمبرﷺ کے مزارات پر بلڈوزر چلا دیئے تھے اور جو آج تک اس پر فخر کرتے ہیں، فقط وہی ایسے لوگ ہیں، جو دنیا میں کہیں بھی صحابہ، اہلبیتؑ اور اولیاء اللہ کے مزارات کے ساتھ یہ سلوک کریں۔ شام میں ہی حضرت حجر بن عدی بن حاتم کے مزار کو شہید کیا گیا اور قبر تک کو کھودا گیا، اسی طرح خاتم الانبیاء ﷺ کی نواسی کے مزار پر راکٹ حملوں سے لے کر خودکش حملے تک کیے گئے۔ یہ شام کی ریاستی پالیسی بھی نہیں ہے، کیونکہ بنو امیہ کے بڑوں کی قبریں دمشق میں موجود ہیں اور کسی نے انہیں نہیں گرایا۔

ویسے اس بار انہوں نے پروپیگنڈا کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے، اس میں ان سے چوک ہوگئی ہے۔ ان کے خیال میں شیعہ سب بنو امیہ کی آنکھیں بند کرکے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے جب یہ تصاویر میڈیا پر جائیں گے تو فرقہ وارانہ بحث شروع ہو جائے گی۔ شیعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر ہمیشہ احترام سے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امیر المومنین حضرت علیؑ کے خلاف ریاستی سرپرستی میں منبروں سے جاری سب و شتم کے سلسلے کو بند کرا دیا اور حکم دیا کہ خطیب اس کی جگہ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھا کریں: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(سورۃ النحل:۹۰) "یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔" اس سے محبین امام علیؑ کے دلوں کو ٹھنڈ پڑی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دوسرا کام فدک بنی فاطمہؑ کو دینا تھا۔ امام محمد باقرؑ نے انہیں نجیب بنی امیہ خطاب کیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ صرف مخالف مسلک کی مخالفت میں وہ بھی لوگ بھی مزار کی بے حرمتی پر رو رہے ہیں کہ رہے رب کا نام۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو سرے سے مزارات کے خلاف ہیں اور ہمیشہ ہم سے یہ بحث کرتے ہیں کہ ائمہ اہلبیتؑ اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات کو گرا دینا چاہیئے، قبر پر تعمیرات کو شرک و کفر گردانتے  ہیں، ان کی اسلام نے کسی صورت میں اجازت نہیں دی ہے۔ آج وہ لوگ بڑے دھڑلے سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا مزار گرانے پر مرثیہ خواں ہیں۔ ویسے سچ پوچھیں تو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ مزارات بنانا، اولیاء اللہ کے ایام منانا اور ان کے ذکر کو عام کرنا عامۃ المسلمین میں رائج عمل ہے۔ یوم ولادت باسعادت خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی ولادت کا دن پوری امت بڑے شوق سے مناتی ہے، لگ یوں رہا ہے کہ سب اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 865431
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
تشیع کے خلاف پروپیگنڈہ پر مبنی نفرت آمیز مہمیں چلا کر انکی نسل کشی کے جواز پیدا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حال میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ سلسلہ پھر سے جاری ہوچکا ہے اور ایسی فضا تیار کی جا رہی ہے کہ 2010ء سے 2014ء کے سیاہ دور کی طرح تکفیری عناصر کو شیعہ نسل کشی کی طرف دھکیل دیا جائے۔ کرونا اور زائرین، شیعہ وزراء کیخلاف پروپیگنڈہ، ایامِ علی علیہ السلام کے جلوسوں کی مخالفت، میڈیا پر شیعہ علماء کی تذلیل، یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، تاکہ پاکستان میں شیعوں کیلئے زندگی کی راہیں تنگ کی جائیں۔

آج صبح پنجاب اسمبلی کی ایک رکن نے سوشل میڈیا پر ایک شرمناک پوسٹ کی (جسے فی الحال بظاہر ہٹایا جا چکا ہے) اس پوسٹ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بے حرمتی شیعوں کے ذمہ لگائی گئی۔ اس کو بڑھاوا دینے میں حسبِ توقع تکفیری شدت پسند اور دہشتگرد جماعتوں کے سرغنہ پیش پیش ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما بشمول اورنگزیب فاروقی اس معاملے کو مسلسل ہوا دے رہے ہیں۔ اسی طرح عریاں مقبول جان جیسے اعتدال کا لبادہ اوڑھے سلفی لفافہ صحافی بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔

یاد رہے عریاں مقبول جان سلفی خارجی اور اورنگزیب فاروقی دیوبندی، جو اس مہم میں حصہ ڈال رہے ہیں، مزاروں کی حرمت کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ان کے فرقے کے نزدیک مزار، شرک کا مرکز ہوتے ہیں اور یہ مزار ڈھانے کی فکر پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان گروہوں نے کبھی جناب حجر بن عدی، صحابئ امام علی ع سمیت انبیاء تک کی قبور داعش کے ہاتھوں منہدم ہونے کی مذمت نہ کی، نہ ہی پاکستان میں صوفی بزرگوں کے مزار جیسے عبد اللہ شاہ غازی، داتا دربار، سہون شریف پر حملوں کے خلاف کبھی ایک لفظ کہا۔ دُور کہاں جاتے ہیں، جنت البقیع کے دوبارہ انہدام کو شوال 2025ء میں سو سال پورے ہونے والے ہیں، ان افراد نے کبھی اس قبرستان کے انہدام بارے ایک احتجاجی لفظ نہ کہا، جو مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ قابلِ احترام قبرستان ہے کہ اس میں آلِ رسول ص جناب فاطمہ زہرا ع ، امام حسن ع ، امام زین العابدین ع، امام باقر ع، امام جعفر صادق ع سمیت جناب عباس ابن عبد المطلب ع جیسے افراد کی قبور موجود ہیں۔

ان قبور و مزارات کو آلِ سعود نے باقاعدہ بلڈوزر چلا کر منہدم کیا اور کبھی ان سلفی خارجی وہابی دیوبندی فکر کے حامل افراد نے ایک احتجاجی و مذمتی لفظ نہ کہا، لیکن آج یہ جناب عمر بن عبد العزیز کی قبر کے انہدام پر شور کر رہے ہیں اور اسکا الزام شیعوں پر لگا رہے ہیں۔ ظاہر ہے، مسئلہ قبروں کا انہدام نہیں کہ یہ لوگ تو اسکے حامی ہیں، بلکہ انکی فطرت میں پڑی شیعہ دشمنی ہے اور وہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے ذریعے فرقہ واریت کو ہوا دی جائے۔

یہاں پر یہ بھی بتا دوں کہ شیعہ اصولی ہو، اخباری ہو، اثناء عشری ہو، اسماعیلی ہو، مقلد و غیر مقلد کوئی بھی ہو، کے نزدیک قبروں کی حرمت اور احترام انکے عقیدے کا حصہ ہے اور شیعہ کسی طور بھی قبروں کی بے حرمتی نہیں کرتے۔ اگر ایساکرنا ہی ہوتا تو شام میں معاویہ بن ابو سفیان کی قبر جو حزب اللہ کے کنٹرول میں ہے، وہاں پر کچھ کرتے۔ شیعہ حضرات امام ابوحنیفہ و شیخ جیلانی کو نہیں مانتے۔ اس کے باوجود ان کے مقبرے آج عراق میں شان و شوکت سے کھڑے ہیں، جبکہ شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ع کے مزار کو داعشیوں نے برباد کر دیا تھا۔ جن جن علاقوں میں شیعوں کا کنٹرول ہو یا شیعہ حکومت ہو، وہاں مسلمانوں کے مقدس مقامات کیساتھ حتی غیر مسلموں کے مقدس مقامات و عبادت گاہوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز کی قبر کا شیعوں کے ہاتھوں انہدام، سراسر جھوٹ اور شرپسندی پر مبنی مہم ہے۔ شیعہ، حضرت عمر بن عبد العزیز کی عزت کرتے ہیں۔ جناب عمر بن عبد العزیز، پانچویں امام باقر ع کے دور کے اموی خلیفہ تھے۔ انہوں نے امام علی ع پر سب و شتم کی روایت کو سرکاری طور پر بند کروایا، انہوں نے ہی فدک کی جاگیر آلِ مروان سے چھین کر آلِ فاطمہ ع کو واپس کی، جسے امام محمد باقر ع نے قبول فرمایا۔ یاد رہے، جناب عمر بن عبد العزیز کو بنی امیہ نے ہی اہل بیتِ رسول ص سے محبت کیوجہ سے زہر دیا اور انکی جان لے لی۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں قتل نہ کیا جاتا تو خلافت بھی بنی امیہ سے چھین کر بنی فاطمہ کو واپس کر دیتے۔

ان تمام عریاں مقبول جانوں اور اورنگ زیب فاروقیوں کی شرارت اور نفرت انکے منافقانہ دوغلے رویئے سے عیاں ہو جاتی ہے۔ جہاں مزار انکے اپنے ہم نظریہ و ہم عقیدہ مدینہ و مکہ سے لیکر شام و عراق و پاکستان تک میں ڈھائیں، وہاں یہ منافق انہیں لوجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں (جیسا کہ سہون شریف حملے کی تحقیقاتی رپورٹ سے ثابت ہے) لیکن جہاں جھوٹ و فریب پر مبنی مہم چلا کر انہیں شیعہ قتل و غارت کا جواز مل سکے، وہاں یہ اپنے نظریئے سے مکر جاتے ہیں اور قبروں کی بے حرمتی کا شور مچانے لگتے ہیں۔
farhat hussaim mahdavi
عمر بن عبدالعزیز کی قبر کا انہدام اور تکفیریوں کا واویلا

معرۃ النعمان ادلب کا جنوبی علاقہ کئی مہینے ہوئے کہ تکفیریوں سے آزاد ہوا ہے، وہی تکفیری جنہوں نے خدا کے نبی یونس علیہ السلام کے حرم شریف کو بموں سے اڑایا اور صحابی حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے مزار کو کھود لیا اور ان کا بےسر بدن چوری کرکے کہیں لے گئے، جس کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ ابھی تین دن پہلے سے عمر عبدالعزیز کو خلیفہ ثانی کی اولاد قرار دے کر واویلا کرنے لگے ہیں کہ جناب عمر بن عبدالعزیز کا مزار شیعوں نے منہدم کیا ہے۔

تو پہلی بات یہ ہے کہ معرۃ النعمان تو شاید چھ مہینے قبل تکفیریوں سے آزاد ہوا اور وہاں کی تاریخی قبروں کے ساتھ تکفیریوں کے ہم عقیدہ دہشت گردوں نے وہ سب کچھ کر دیا تھا، جو وہ عام طور پر کر دیتے ہیں اور اگر وہ پیغمبر کا حرم منہدم کرسکتے ہیں تو ایک تابعی کی ان کے ہاں کیا حیثیت ہوگی اور اگر مروانی حکمران عمر بن عبدالعزیز کی قبر واقعی منہدم نظر آئی ہے تو یقینی طور پر صحابی حجر بن عدی کی طرح تکفیریوں نے ہی یہ کام کیا ہوگا، جس کو وہ اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔

تو یہ چھ مہینے خاموش رہنے کے بعد عین اس وقت جبکہ مسلمانان عالم یوم انہدام بقیع منا رہے ہیں، وہی بقیع جو تم تکفیریوں کے عقیدے کی بنیاد پر بنی سعود کے ہاتھوں منہدم ہوا ہے، اچانک تمہیں یہ بات کیسے ياد آئی اور کس نے یاد دلائی، برطانیہ نے یا امریکہ نے؟ حالانکہ عمر بن عبدالعزیز کی قبر بھی معرۃ النعمان کے شیعہ فاتحین کو منہدم حالت میں ملی تھی اور جو ویڈیو نشر ہوئی، وہ بھی گرفتار دہشت گردوں سے ملی تھی، جس میں خدا اور رسول اور انسان کے دشمن تکفیری عمر عبدالعزیز کی قبر کو کھودتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ تمہارا تو عقیدہ ہے کہ تمام قبروں کو مسمار کرنا چاہیئے، پاکستان میں عبداللہ شاہ غازی اور سہون شریف میں خودکش دھماکے اسی بات کا ثبوت ہیں، حتی کہ پشتو کے شاعر رحمان بابا کی قبر کو بھی تم نے نہیں بخشا، مگر وہ تو تمہیں نظر ہی نہیں آیا، کیونکہ تمہارے عقیدے کے مطابق کا عمل تھا تو فرض کریں کہ عمر بن عبدالعزیز کی قبر شیعوں نے منہدم کر دی ہو تو اس میں برائی کیا ہے؟ تمہارے دونوں آنکھوں سے محروم بن باز آل شیخ کی بات تو پوری دنیا کو یاد ہے، جو کہتا تھا کہ اگر ہمارا بس چلتا تو روضۂ رسول (ص) کو بھی منہدم کردیتے! اور یہ کہ "میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اندھا ہوں اور میری نظریں شرک کے اس مظہر (معاذ اللہ) یعنی روضۂ رسول(ص) پر نہیں پڑتیں"! تو جو روضۂ رسول (ص) کو ڈھانا چاہتے ہیں، انہیں اچانک ایک تابعی کی قبر کا انہدام کیوں کھٹکنے لگا ہے؟ اگر یہ فرض صحیح ہو اور اس قبر کو شیعوں نے منہدم کیا ہو تو تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہیئے کہ انھوں نے تمہارا ہاتھ بٹایا ہے!!!

تیسری بات یہ ہے کہ شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں واحد قابل مدح اموی، مروانی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہیں، جنہوں نے معاویہ علیہ الہاویہ کی طرف سے ترویج کردہ لعن علی (ع) کو ممنوع قرار دیا، تو شیعہ اس خلیفہ کی قبر کیوں ڈھائیں گے؟ کیا تمہاری کھوپڑی میں عقل نام کی کوئی چیز ہے۔؟

چوتھی بات یہ کہ معاویہ اور یزید کی قبریں دمشق میں ہیں اور صہیون شکن شیعہ مجاہدین کی دسترس میں بھی ہیں، تو تم نے اپنے آپ سے یا ٹیلی ویژن کے اسکرین پر نظر آنے والے جاہل لفافہ خوروں سے کبھی پوچھا ہے کہ شیعہ ان دو افراد کی قبروں کو کیوں کچھ نہیں کہتے، جنہوں نے اسلام کی جڑیں اکھاڑنے کی کوشش کی ہے اور اصحاب اور اہل بیت (ع) اور بالخصوص فرزندان رسول امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے قاتل ہیں؟؟؟

پانچویں بات یہ کہ تکفیریت کا زمانہ گزر چکا ہے، لفافے آنا بہت جلد بند ہونے والا ہے، سعودی خزانہ لٹ چکا ہے، بس اب توبہ کرو اور ملک و ملت کی تعمیر میں کردار ادا کرو اور یاد رکھو کہ شیعہ کسی کی قبر یا مزار منہدم کرنے، تکفیریت کرنے، سر کاٹنے اور مساجد اور مزارات میں خودکش دھماکے کرنے اور اپنے ملک کے فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے کے قائل نہیں ہیں اور وہ ان سارے اعمال کی مذمت کرتے ہیں؛ اور یاد رکھو کہ جو کچھ کرتے رہے ہو، ان کا حساب دینا ہوگا؛ کیونکہ سعودی تکفیریت کا خاتمہ بہت قریب ہے، اتنا کہ تم تصور بھی نہیں کرسکتے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
ہماری پیشکش