0
Sunday 31 May 2020 01:39

بأي ذنب قتلت؟

بأي ذنب قتلت؟
تحریر: جمشید علی

8 شوال کا دن مسلم امہ کو ہمیشہ کے لیے بدنام کر گیا، جس دن مسلمانوں نے اپنے رسول کی اکلوتی بیٹی کے مزار کو مسمار کر دیا۔ ہر عقلمند قوم اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہے، لیکن بعض متعصب لوگوں نے مسلمان قوم کو ایسا بدنام کیا کہ ہمیشہ کے لیے سر جھکا دیئے اور تعجب اس بات پر ہے کہ جس نے یہ گناہ کبیرہ انجام دیا، وہ خود نسل در نسل بادشاہت کا وارث بنا تھا اور آج سینکڑوں سال بعد بھی اسی کی نسل کا احترام نہ فقط اہل حجاز بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے واجب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ بیت اللہ کے خادم سمجھے جاتے ہیں اور جو بیت اللہ کے وارث سمجھے جاتے تھے، ان کی اولاد کا کوئی احترام نہیں بلکہ وہ تاریخ میں ہمیشہ واجب القتل قرار پائے، بلکہ کام ایک درجہ اس سے بھی آگے چلا گیا کہ جو ان سے محبت کی وجہ سے منسوب ہو جائے، اس کا یہ گناہ بھی ناقابل بخشش ہے۔

آج جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں، اسی اثناء میں خبر آئی ہے کہ جناب عمر بن عبد العزیز کی قبر کی بے حرمتی کرنے والوں کو سوریہ کی فوج نے دھر لیا ہے۔ آج بہت سارے علماء ایک تابعی جناب عمر بن عبد العزیز کی قبر کی بے حرمتی پر سراپا احتجاج ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک تابعی کی قبر کی بے حرمتی یقیناً حرمت شرعی رکھتی ہے، لیکن اگر جنت البقیع میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور نواسوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ ہوتی تو آج یہ کام نہ ہوتا۔ تکفیری سوچ، جس نے آج پوری دنیا کو ذبح خانہ میں تبدیل کر دیا، اس کی جڑیں بہت پہلے سے آبیاری ہوتی رہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان ایک برائی کو برائی کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ہمیشہ پہلے فرقہ واریت کے ترازو پر تولتے ہیں اور دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ الحمد للہ یہ ہمارے فرقہ کا کام نہیں، یہ دوسری تنظیم، دوسری پارٹی، دوسری تحریک کے افعال ہیں۔

درحالیکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن خصوصاً استعمار خبیث ہمیں فرقہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ کی وجہ سے قتل کر رہا ہے۔ دشمن پہلے فرقہ میں تقسیم کرتا ہے، پھر ہر گروہ کو اپنا اسلحہ بیچتا ہے، با الفاظ دیگر پہلے بیماری پیدا کرتا ہے، پھر اس کے علاج کے عنوان سے پیسہ لوٹ جاتا ہے، پھر ہمارا خون بہا کر ہمیں بدنام بھی کرتا ہے اور آخر پر ہمارا ہمدرد بن کر معدنیات کی صورت میں موجود سارا سرمایہ لوٹ جاتا ہے۔ اگر اس کھیل میں دیکھا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ ایک گروہ ہمیشہ اور ہر میدان میں شکست کھا رہا ہے اور دوسرا گروہ پہلے گروہ کی فرقہ بندی کی وجہ سے ہمیشہ جیت رہا ہے۔ درحالیکہ پہلے گروہ کے پاس اتحاد کے لیے بہت عظیم سرمایہ توحید، نبوت، قرآن کی شکل میں موجود تھا اور ہے۔ ہم توحید و نبوت کو سرمایہ حیات و ممات بنانے کی بجائے ایک بدبودار مائع (پٹرول) کو اپنی زندگی کا محور بنا بیٹھے۔

افسوس کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں مسلم امہ کی باگ ڈور تھی، وہ خود اسلام سے کوسوں دور تھے اور چند من گھڑت تنگ دل عالم نما لوگوں کا آلہ کار بن کر اسلام کو بدنام کرتے ہوئے تفریق کا سبب بنے، لیکن اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ کئی سالوں سے آنے والے ان کی نا اہل جانشین بھی امریکہ جیسے ظالم جابر درندہ کی غلامی کو باعث فخر سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان ابھی تک آتش تفریق روشن کیے ہوئے ہیں۔ دنیا پرست جو اپنے آپ کو ملت کا خادم کہہ کر لوگوں کے مال و دولت پر قبضہ کرنا ہدف بنائے ہوئے تھے، ہمیشہ سے انہوں نے مختلف وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کے احساسات و جذبات سے استفادہ کرتے ہوئے ملت کو کوڑی کے داموں بیچ کر بیرون ملک جائیداد بنانے کو باعث عزت و افتخار سمجھا اور روز اول سے اگر کوئی ابوذر پیدا ہوا تو مختلف طریقوں سے اسے راستہ سے ہٹا دیا گیا،  اس طرح یہ امت ہمیشہ سے ہی دردمند افراد سے محروم رہی۔ یہ کوئی ایک یا دو سو سال کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے مطلب پرست لوگ حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے اسلام اور مسلمان امت کے درد کو بہانہ بناتے رہے، لیکن اتنے اسلام شناس کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی بیٹی کا مزار تک قبول نہیں اور جنہیں صادق و امین کی زبان صادق کہتی تھی، انہیں شدت پسندی نے ربذہ کے صحراء میں پہنچا دیا۔

جب تک امت اسلامی کے نچلی سطح والے دردمند افراد اس امت کی باگ ڈور نہیں سنبھالیں گے، اس وقت تک یہی ضمیر و ملت فروش لوگ ملت کا سرمایہ لوٹ لوٹ کر امریکہ اور اس کے حواریوں کو خوش کرتے رہیں گے۔ قرآن کی صراحت مطابق یہودی کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، بس اس قرآنی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ ارطغرل جو اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھا رہے ہیں یا بڑھانا چاہتے ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو مسلم امہ کا لیڈر سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل ایک چھوٹے سے عرب ملک کی ایک ذیلی تنظیم اسرائیل دشمن خدا کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔ اسلام نے آج بھی اپنی راہیں مشخص کر رکھی ہیں، ھل من مدکر کی صدائیں آج بھی اسلامی فضاؤں میں گونج رہی ہیں۔ اگر ہم اصحاب بلکہ تابعی کی قبر کی بے حرمتی پر بے چین ہیں، جو کہ حق ہے اور بے چین ہونا بھی چاہیئے تو ہمیں سب سے پہلے بنت رسول اللہ کی قبر کی کئی سالہ بے حرمتی کا جبران کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 865700
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش