0
Saturday 30 May 2020 10:47

امام خمینی کی ذاتی زندگی اور خاندانی رویئے(1)

امام خمینی کی ذاتی زندگی اور خاندانی رویئے(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

ایک عالمی شخصیت بالخصوص کئی شعبوں میں فعال شخصیت کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں مطلوبہ وقت اور توجہ دینا ناممکن نہیں تو مشکل امر ضرور ہوتا ہے، لیکن امام خمینی نے اپنی پوری زندگی میں سماجی تعلقات بالخصوص اپنے اہل خانہ سے تعلقات میں غیر معمولی اعتدال اور توازن برقرار رکھا۔ امام خمینی ایک مجتھد اور دینی تعلیمات کو اس کے فلسفے اور لاجک کے ساتھ سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کو قرآنی اور اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کی تاحد امکان کوشش کی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب سے اچھے تعلقات اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر تاکید کی گئی ہے۔ اسلام رشتہ داروں اور اہل خانہ سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کو بہترین اعمال میں سے قرار دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ امام خمینی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہایت مہربانی اور مہر و محبت سے پیش آتے تھے، آپ کے لیے آپ کے اہل خانہ کی حیثیت و مرتبہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ آپ  اپنی اہلیہ کا بہت احترام کرتے اور اپنی اہلیہ پر فخر کرتے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ خداوند کریم نے انہیں بہترین شریک حیات عطا کیا ہے۔

امام خمینی کی بہو محترمہ فاطمہ طباطبائی کہتی ہیں کہ امام کو اپنی اہلیہ سے خاص عشق و محبت تھی، یہاں تک کہ آپ اپنی اہلیہ کو ایک طرف اور اپنے بچوں سے محبت کو ایک طرف رکھتے تھے۔ آپ کی اپنی اہلیہ سے محبت میں ایک خاص احترام تھا۔ محترمہ فاطمہ طباطبائی اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ایک بار امام کی اہلیہ کسی سفر پر گئی ہوئیںِ تھیں، امام ان کی شدید کمی محسوس کر رہے تھے۔ آپ گھر میں معمول سے زیادہ سنجیدہ بیٹھے تھے کہ میں نے امام سے مذاق کرتے ہوئے کہا امام جب آپ کی اہلیہ گھر میں ہوتی ہیں تو آپ زیادہ خوش و خرم نظر آتے ہیں اور جب وہ نہیں ہوتیں تو آپ کا موڈ آف ہوتا ہے۔ ہم امام سے اس موضوع پر مذاق کرتے، لیکن آپ کی طبیعت میں بدستور بوریت باقی رہتی۔ ایک دفعہ میں نے امام کے سامنے یہ جملہ کہہ دیا کہ حاج خانم کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ انہیں اس قدر دوست رکھتے ہیں۔ امام نے میرے جملے کے جواب میں کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے خدا نے ایسی ذوجہ عطا کی ہے۔ میری اہلیہ نے میرے لیے جتنا ایثار کیا ہے، کسی اور نے نہیں کیا ہے۔

امام خمینی اپنی اہلیہ کو بے مثال زوجہ قرار دیتے تھے۔ آپ ان خواتیں کو جو امام کی اہلیہ سے لگائو کے بارے میں سوال کرتیں تو آپ ان کو مخاطب کرکے کہتے کہ اگر آپ لوگ بھی اپنے شوہروں کے ساتھ زیادہ ایثار و قربانی کے ساتھ پیش آئو گے تو وہ بھی تم سے بہت زیادہ عشق و محبت کریں گے۔ زہراء اشراقی اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ امام کی اپنی اہلیہ سے عشق و محبت ان کے ایثار و قربانی کی وجہ سے تھا۔ آپ سب سے کہتے تھے کہ میری زوجہ کی مثال نہیں ہے۔ میری اہلیہ نے پندرہ سال تک میرے ساتھ نجف کے گرم و سخت حالات میں گزارہ کیا اور مشکلات کو برداشت کیا، نیز ہر مشکل میں میرے ساتھ تھیں، حالانکہ میری اہلیہ کا خاندان کھانا پیتا اور پرآسائش زندگی گزار رہا تھا۔ میری اہلیہ کی عمر پندرہ سال تھی، جب وہ میرے عقد میں آئیں، وہ اس زمانے میں قم میں رہنا پسند نہیں کرتی تھیں، لیکن انہوں نے اس کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ زہراء اشراقی کہتی ہیں کہ ہم جب بھی امام سے یہ پوچھتے کہ ہم خواتین کیا کریں کہ ہمارے شوہر ہمارا زیادہ خیال کریں تو آپ فرماتے کہ اگر آپ لوگ بھی میری زوجہ کی طرح فداکاری اور ایثار کا مظاہرہ کرو تو آپ کے شوہر بھِی اس قدر آپ کا خیال رکھیں گے۔

امام خمینی اپنے بڑے بھائی جو آپ کے استاد بھی تھے، کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، آپ اپنے خاندان کے تمام افراد کو ان کے احترام کی تلقین کرتے تھے۔ آپ کے ملازم رحیم مہربان کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ خود سنا تھا کہ امام اپنے فرزند احمد خمینی کو اپنے بڑے بھائی کے احترام کی تلقین کر رہے تھے۔ آپ کے بڑے بھائی جب آپ کے گھر آتے تو واپسی پر ان کو دروازے تک چھوڑنے آتے اور سب سے کہتے تھے کہ ان کو کسی طرح کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیئے۔ حجت الاسلام رحیمیان بھی امام کی طرف سے اپنے بڑے بھائی آیت اللہ پسندیدہ کے احترام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے کئی بار اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ آپ کس قدر اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتے تھے۔ امام اپنے بڑے بھائی کا ایک استاد اور والد کی طرح احترام کرتے تھے۔ رہبری اور بے پناہ سیاسی مصروفیات کے باوجود جب آیت اللہ پسندیدہ آپ کے پاس آتے تو آپ بڑے احترام اور مہر و محبت سے ان کا حال احوال پوچھتے۔ بعض معمولی گھریلو مسائل کے حوالے سے بھی ان کی باتوں کا جواب دیتے۔

آیت اللہ پسندیدہ بعض اوقات اپنے گھر کے روزمرہ کے معمولی مسائل مثلاً پانی کے نل کے خراب ہونے یا واش روام میں پانی کم ہونے جیسے معمولی مسائل کو بھی بیان کرتے اور امام غور سے سنتے اور اس پر کسی طرح کی ناپسندیدگی یا عدم توجہ کا مظاہرہ نہ کرتے۔ امام خ٘مینی اپنے گھر والوں پر کبھی اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے تھے۔ آپ نے اپنے گھر کے افراد کو ان کے فیصلوں میں آزاد چھوڑ رکھا تھا اور آپ ان کی ذاتی زندگیوں میں ان کی خواہش کے بغیر کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتے تھے۔ آپ کے فرزند سید احمد خمینی کہتے ہیں کہ امام نے ہمیں اپنے امور کے حوالے سے آزادی دے رکھی تھی، مثلاً مجھے فٹ بال کا بہت شوق تھا اور فٹ بال کے کھیل میں کئی بار میرے ہاتھوں میں فریکچر آیا، جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ آپ گھر میں شرعی حدود پر تاکید کرتے تھے اور جب تک گھر کا کوئی فرد شرعی حدود کے اندر رہتا، آپ اس کو کچھ نہیں کہتے تھے، لیکن اگر شرعی حدود سے عبور کرتا تو اسے ٹوکتے۔

امام کی بیٹی زہراء مصطفوی اس حوالے سے اپنی یاداشتوں میں کہتی ہیں کہ امام نے بچپن میں ہمیں آزادی دے رکھِی تھی، ہمارے کسی کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے، لیکن جب ہم سن بلوغ کو پہنچیں اور بڑی ہوگئیں تو ہمارے بعض مسائل کی نگرانی اور نظارت کرتے۔ فریدہ مصطفوی بھی امام خمینی کی اس روش کے بارے میں کہتی ہیں کہ امام اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ امام نے ہمیں کافی حد تک آزادی دے رکھی تھی۔ جب تک کوئی شریعت کے خلاف عمل انجام نہ پاتا، آپ مداخلت نہیں کرتے تھے۔ آپ ہمارے رہن سہن، لباس اور آمد و رفت کے حوالے سے سخت گیری نہیں کرتے تھے۔ آپ اپنے بچوں کے ذوق و شوق کا اس حد تک خیال کرتے کہ ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر احمد خمینی کو چونکہ فٹ بال اور کھیلوں کا بہت شوق تھا، لہذا جب وہ کمرے میں داخل ہوتے تو امام اگر کوئی خبری چینل دیکھ رہے ہوتے تو چینل بدل دیتے اور احمد خمینی سے کہتے یہ لو میں نے تمھارے لیے چینل بدل دیا ہے، اب بیٹھ کر دیکھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 865720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش