3
Monday 1 Jun 2020 09:38

مغربی تہذیب کا دم گُھٹ رہا ہے

مغربی تہذیب کا دم گُھٹ رہا ہے
تحریر: محمد ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com

ایک نام نہاد تہذیب یافتہ ریاست کے ایک پولیس آفیسر کے گھٹنے تلے دبا جارج فلائیڈ گھٹی گھٹی آواز میں بار بار رحم کی اپیل کرتا رہا۔ وہ کہتا رہا  "میرا دم گُھٹ رہا ہے" "میں مر رہا ہوں" لیکن سفید رنگت کے زُعم میں مبتلا آفیسر کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، حالانکہ جارج فلائیڈ مسلح بھی نہیں تھا، اس کے ہاتھ بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے گئے تھے، الزام بھی جعلی دستاویزات کا تھا۔ اس قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں، لیکن کہا جا رہا ہے کہ پولیس آفیسر نے اس کی گردن پہ اپنا گھٹنا آٹھ منٹ سے زیادہ دیر تک دبائے رکھا، حالانکہ فلائیڈ کی جان پانچویں منٹ میں ہی نکل چکی تھی۔ یوں ایک پولیس آفیسر جو کسی بھی ریاست کے امن و امان کا ضامن کہلاتا ہے، وہ اپنے ہی ملک کے ایک شہری کی لاش کو تین منٹ تک روندتا رہا۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، اپنے آپ کو اعلیٰ تہذیب و تمدن کا گہوارہ قرار دینے والے سوچیں کہ ایک وائٹ کلر کے انسان نما نے کیوں اتنے وحشی پن کا ثبوت دیا کہ اس کے نیچے دبا ایک سیاہ فام انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں، جنہوں نے امریکی So Called تہذیب و تمدن کو ننگا کیا ہے۔

مثلاً جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل سے چند دن پہلے ریاست جارجیا میں ایک سیاہ رنگت کے شہری کو چند سفید فام افراد نے قتل کر دیا تھا، اس واقعے کا مقدمہ یہ کہ کر چلانے سے انکار کر دیا گیا کہ یہ قتل Self Defence کے تحت کیا گیا ہے۔ سو منیسوٹا کے شہر منی پولیس کے عوام جو پہلے ہی ایسے واقعات کی وجہ سے شدید غصے میں تھے، جارج کے قتل پر مزید بپھر گئے۔ جلتی پر تیل کا  کام ریاستی پولیس کے دھمکی آمیز رویئے نے کیا۔ یوں عوام کا اشتعال بڑھا اور امریکہ ناامنی کی آماجگاہ بن گیا۔ آخری خبریں آنے تک لاکھوں مظاہرین اس وقت امریکی سڑکوں پر فلائیڈ کے حق میں نعرے لگا کر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس تھانوں، گاڑیوں، مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ منیسوٹا، اٹلانٹا، لاس اینجلس، ٹیکساس، کیلیفورنیا، نیویارک اور کولمبیا سمیت مختلف ریاستوں کے تقریباً چالیس سے زائد شہروں میں احتجاج جاری ہے۔ پولیس اور سکیورٹی ادارے عوام کو دبانے کی کوشش رہے ہیں۔ جس پر عوام مزید بپھر رہی ہے اور اس احتجاج میں اب صرف سیاہ فام نہیں بلکہ سفید فام بھی شامل ہوگئے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق جارج کے قاتل پولیس آفیسر ڈیرک شیون کی بیوی نے بھی اس قتل کو سفاکانہ قرار دیتے ہوئے اپنے شوہر سے علیحدگی کے لئے کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آرہی ہے کہ ڈیرک شیون کی ضمانت ہوگئی ہے اور اسے عنقریب رہا کر دیا جائے گا۔ اگر یہ خبر صحیح ہے اور اس قاتل کو رہا کیا جاتا ہے تو پھر احتجاج کا یہ سلسلہ مزید پھیل کر امریکہ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے اپنے زہر آلود ٹوئیٹس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دھمکی آمیز زبان استعمال کی اور کہا کہ کہ مظاہرین یاد رکھیں کہ جب لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو گولی بھی چلتی ہے۔ اس طرح کے ایک اور ٹوئیٹ میں کہا کہ اگر مظاہرین نے وائٹ ہاوس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں خونخوار کتوں اور سکیورٹی گارڈز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے ٹوئیٹس کے بعد مظاہرین اپنے لئے وائٹ ہاوس پر دھاوا بولنے کو ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں مغربی میڈیا مسلسل امریکی صدر کی حمایت میں بول رہا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ مغربی تہذیب کا  آبائی وطن امریکہ کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ اب چونکہ انہیں اپنے نظام میں نقائص نظر آنے لگے ہیں، انسانی حقوق اور آزادی کا نعرہ سراسر جھوٹ ثابت ہو رہا ہے، اس لیے اب وہ اپنی ان خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مسلسل جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کر اس قتل کو دبانا چاہ رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام  ہے کہ یہ وحشی جب اپنے ملک کے شہریوں کے ایسا سلوک کرسکتے ہیں تو شام، عراق، افغانستان اور ان جیسے دوسرے ممالک میں کس طرح انسانیت کی تذلیل کرتے ہوں گے۔ اس وقت امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، کسی بھی معاشرے میں جب ایسا ہونے لگے، جہاں عوام الناس اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں، جہاں نسل پرستی کو ہوا ملنے لگے تو وہاں ناامنی اور خانہ جنگی کی راہ ہموار ہوا کرتی ہے اور امریکہ اس وقت درست اسی سمت میں بڑھ رہا ہے۔

دنیا بھر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کے قاتل اس وقت اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہیں، ان کی معیشت جو پہلے ہی کورونا کی وجہ سے ڈوب رہی ہے، ایک لاکھ سے زائد امریکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کئی لاکھ بے روزگار ہوچکے ہیں ایسی خطر ناک صورتحال میں ریاست کے ذمہ دار سکیورٹی اہل کاروں کا اپنی عوام کے ساتھ ایسا وحشتناک رویہ امریکہ کو تیزی سے تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ مغربی تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے، دنیا بھر میں انسانی حقوق اور نام نہاد روشن فکری کے دعویدار مغرب اور خصوصاً امریکہ کا اصلی اور منحوس چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہوچکا ہے۔ حقیقت میں یوں کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ مغربی تہذیب غلاظت کا ایک ڈھیر ہے اور امریکہ اس غلاظت کے ڈھیر پہ لہراتا ہوا پرچم ہے۔ مغربی نام نہاد دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو اپنے درمیاں یہ دم گھٹتے انسان کیوں نظر نہیں آتے، چونکہ حقیقت میں جارج فلائیڈ کا نہیں بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کا دم گُھٹ رہا ہے۔ بقول علامہ اقبال(رہ)
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
خبر کا کوڈ : 865902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش