0
Sunday 31 May 2020 17:20

امام خمینی کی ذاتی زندگی اور خاندانی رویئے(2)

امام خمینی کی ذاتی زندگی اور خاندانی رویئے(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امام خمینی اپنے اہل خانہ بالخصوص نوجوانوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق پیش آتے، تاکہ وہ کچھ سیکھیں، لیکن جبر اور سختی سے اچھی باتوں کو ان تک منتقل کرنے کے خلاف تھے۔ امام کی بیٹی فریدہ مصطفوی اس حوالے سے کہتی ہیں کہ امام گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ انتہائی مہر و محبت سے پیش آتے تھے۔ آپ کی موجودگی میں گھر کا ماحول عشق و محبت سے لبریز نظر آتا۔ امام شرعی مسائل کے علاوہ کسی مسئلے میں سختی نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے کہ خدا کے احکامات کو بجا لائو، تاکہ گناہوں سے دور رہو۔ آپ دینی امور کو ڈکٹیٹ نہیں کرتے تھے۔ اہل خانہ جب آپ کے اس رویئے کو دیکھتے تو خود ہی دینی و اسلامی اقدار پر عمل کرنے لگتے۔

آپ لڑکوں کو نماز کے لیے حوصلہ افزائی فرماتے، لیکن نماز کی ادائیگی کے بارے میں ان سے بار بار سوال نہیں کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ اس حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ امام بہت کم نصیحت کرتے، سات سال کی عمر کے بعد تربیت پر تاکید کرتے، یعنی سات برس کے بچے کو نماز پڑھنے کا کہتے تھے۔ بچوں سے نماز کی ادائیگی کے بارے میں پوچھتے، جب کوئی بچہ یہ کہہ دے کہ اس نے نماز پڑھی ہے تو اس کو مان لیتے تھے، جستجو یا تفتیش نہیں کرتے تھے۔ امام فجر کی نماز کے حوالے سے سوائے ان کے جو امام سے جگانے کے لیے کہتے تھے، کسی کو بیدار نہیں کرتے تھے، آپ کہتے تھے اگر خود جاگ گئے تو نماز پڑھو، اگر کسی وجہ سے بیدار نہیں ہوسکے تو نماز ظہر سے پہلے صبح کی نماز ضرور قضا پڑھ لو۔ نماز کے حوالے سے وہ بچوں پر سختی نہیں کرتے تھے۔ امام اپنے گھر کے افراد کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لیتے اور دوسروں سے بھی یہی کہتے کہ ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو۔

آپ کی بیٹی زہراء مصطفوی ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بعض اوقات بعض افراد آکر توہین بھی کرتے، لیکن آپ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ ایک بار ہمارے خاندان کا ایک فرد رات کے کھانے کے دوران آپ سے سخت ناراض ہو کر توہیں آمیز لہجے میں گفتگو کرنے لگا اور غصے میں اٹھ کر امام کی طرف ایسے بڑھا جیسے امام پر ہاتھ اٹھانا چاہتا ہے۔ لیکن امام نے کسی طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کیا وہ اٹھ کر دوبارہ واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا لیکن امام آرام سے اپنی جگہ بیٹھے رہے اور کسی طرح کے غصے یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ زہراء مصطفوی ایک اور واقعہ نقل کرتی ہیں کہ ایک بار ہمارے ایک عزیز نے آپ سے انتہائی توہین آمیز انداز میں گفتگو کی، لیکن آپ نے انتہائی آرام سے اس کو جواب دیا اور بڑے اطمینان سے ان کو کہا "چیخ کیوں رہے ہو، آئو آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں، کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی جائیں گے۔ میں نے کسی کو کسی چیز سے روکا نہیں ہے، سب بات کرنے میں آزاد و خود مختار ہیں۔

آپ کی بیٹی فریدہ مصطفوی کہتی ہیں کہ ہمارے گھر میں عام طور پر باہمی اختلافات پیش نہیں آتے تھے اور کبھی اختلاف ہو بھی جاتا تو ہم کوشش کرتے کہ امام کو پتہ نہ چلے، تاکہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن بعض اوقات وہ متوجہ ہو جاتے تو ہمیں صبر و تحمل کی تلقین کرتے، مسائل کو بات چیت سے حل کرنے پر تلقین کرتے۔ آپ اپنے بچوں کی نجی خاندانی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے۔ آپ سب سے مساوی مہر و محبت کرتے۔ آپ اہل خانہ میں کسی طرح کے تعصب یا ناانصافی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ آپ کی بیٹی زہراء مصطفوی کہتی ہیں کہ امام اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت زیادہ مہر و محبت سے پیش آتے، ہم جہاں ان کا بہت احترام کرتے، وہاں ان سے شدید محبت بھی کرتے تھے۔ امام اپنی تمام اولاد کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور سب سے ایک جیسی محبت کرتے۔ ہم آخر تک یہ محسوس نہ کرسکے کہ آپ کو اپنے کس بچے سے زیادہ محبت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 865916
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش