0
Monday 1 Jun 2020 16:32

نوبت اینجا رسید کہ وائٹ ہاوس کی روشنیاں بند ہوگئیں

نوبت اینجا رسید کہ وائٹ ہاوس کی روشنیاں بند ہوگئیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے، یہاں ایک طاقتور ریاستی انتظامیہ موجود ہے، جو دنیا بھر کے فیصلے کرتی ہے۔ دنیا کی معیشت ان کے ہاتھ میں ہے، جو ان کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کرتا ہے، اس پر پابندیوں کا بوجھ اتنا کر دیتے ہیں کہ وہ خود ان کے پاس چلا آئے، معذرت کرے اور ان کی رعایا بن کر رہے۔ کچھ سر پھرے جو شعب ابی طالب ؑ کی مثال رکھتے ہیں، وہی ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کے غرور کو نیچا دکھاتے رہتے ہیں۔ کل وہاں ایک عجیب واقعہ ہوا ہے، طاقت کے اس مرکز میں جس کی عوام کو دھوکے میں رکھا گیا ہے، جہاں امن کا نعرہ لگا کر دنیا کو آگ لگائی گئی، جمہوریت کے نام پر خون دیا گیا ہے، آزادی کے نام پر لاشیں دی گئیں ہیں۔ ایک جارج فلائیڈ نامی جوان کو پولیس والے نے پکڑ رکھا ہے، اس کی گردن کو مسلسل دبا رہا ہے۔ وہ چیخ رہا ہے، آہ بکا کر رہا ہے، مگر وہ اس کی نہیں سنتا، یہاں تک کہ اس کی آواز بند ہو جاتی ہے اور وہ اگلی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس ویڈیو کے سامنے آتے ہی اس شہر میں شدید مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں، یہ ویڈیو جیسے جیسے اور لوگوں تک پہنچتی ہے، یہ مظاہرے پھیلتے جاتے ہیں اور پورے امریکہ میں پھیل جاتے ہیں۔

امریکہ میں کالے لوگوں کے ساتھ اس طرح کے تعصب کا ہونا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں کالے اور گورے کی تفریق بہت قدیم ہے، صرف رنگ مختلف ہونے کی وجہ سے ایک لمبی مدت تک اور کسی حد تک ابھی بھی افریقی تعصب کا شکار ہیں۔ انہیں نچلے درجے کا انسان سمجھا جاتا تھا، سفید رنگ کو آئیڈیلائز کیا گیا، اسی لیے قدیم ترین دریافتوں میں بھی عورت کے بناو سنگھار کے جو وسائل دستیاب ہوئے ہیں، وہ گورا کرنے کی طرف ہی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جن چیزوں کو سختی سے روندھا، ان میں سے ایک رنگ کے بنیاد پر حاصل برتری تھی۔ آقائے نامدار نے عملی طور پر سیرت چھوڑی کہ رنگ کی بنیاد پر کوئی فضیلت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ  اسلامی معاشروں میں کالے اور گورے کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوئی۔ افریقہ کے  ساحلوں سے جہاز بھر بھر کر غلام امریکہ پہنچائے جاتے تھے، انہیں بڑے پیمانے پر کھیتوں میں کام پر لگا دیا جاتا تھا، ان کی پوری زندگیاں کھیتوں میں ہی گزر جاتی تھیں۔

آج بھی امریکہ کے مختلف شہروں میں میوزیم قائم ہیں، جہاں اس دور کی چیزوں کو محفوظ کیا گیا ہے اور بعض جگہوں پر وہ باڑے آج بھی موجود ہیں، جہاں ان کالے غلاموں کو رکھا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کا ایک پورا نظام قائم تھا، جس میں ان افریقی غلاموں کا استحصال کیا جاتا۔ ایک ایک زنجیر میں کئی غلام باندھے جاتے تھے، کھانے پینے کے حوالے سے حالات انتہائی دگرگوں تھے۔ امریکہ میں کالے رنگ والوں کو مکمل انسان نہیں سمجھا جاتا تھا، اسی لیے پہلے انہیں ووٹ کا حق حاصل نہ تھا۔  امریکہ میں ایک دوست سے بات ہو رہی تھی، وہ بتا رہے تھے کہ امریکی سینیٹ میں باقاعدہ بحث ہوئی، جس کے بعد یہ کہا گیا کہ غالباً چار کالے ملکر ایک ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ کالے مکمل انسان نہیں ہیں کہ ان کی عقل کامل ہو۔ چار کالوں کی عقل ملکر ایک سفید کی عقل کے برابر ہوتی ہے، اس لیے چار کالوں کا ووٹ ایک گورے کے برابر ہوگا۔

ویسے استعمار نے بڑی زیادتیاں کی ہیں، برطانیہ میں بچوں کو پڑھایا جاتا تھا کہ ساوتھ ایشیاء میں رہنے والے لوگوں کا دماغ ہم سے چھوٹا ہے، وہ ہم جیسا سوچ ہی نہیں سکتے۔ اس لیے برطانوی اداروں سے تعلیم پا کر ہندوستان اور دیگر ممالک میں جانے والے انگریز افسران مقامی لوگوں کو انتہائی حقارت سے دیکھا کرتے تھے اور ان کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیا کرتے تھے، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا دماغ ہی چھوٹا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس وقت کی میڈیکل تحقیقات پیش کرکے یہ بات باور کرائی جاتی تھی۔ امریکہ میں بھی یہ سوچ بڑی مستحکم ہے کہ ہمارے غلاموں کی اولادیں ہیں، جنہیں ہم خرید کر لائے تھے، جو ہمارے کھیتوں میں کام کرتے تھے، اب یہ ہمارے برابر کیسے ہوگئے؟ یہ سوچ بار بار تنازع پیدا کرتی ہے۔

جارج فلائیڈ پر ہونے والے ظلم کے خلاف امریکہ کے کالے اور گورے تمام انصاف پسند اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ نیویارک سمیت امریکہ کے کئی شہروں میں آگ لگی ہے، پولیس  اور انتظامیہ بربریت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایسی ایسی ویڈیوز آرہی ہیں کہ دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان لوگوں نے کبھی تہذیب یافتہ دنیا بھی دیکھی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس والا مظاہرین پر گھوڑا چڑھا دیتا ہے اور مظاہرین اوندھے منہ گرے ہوئے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک  کالے نوجوان کو پولیس نے پکڑا ہوا ہے اور پانچ ساتھ پولیس والے اس پر مسلسل تشدد کر رہے ہیں۔ خواتین اور نوجوان کھڑے ہوئے ہیں، پولیس والے بڑی بے دردی سے مرچیں ان کی آنکھوں پر پھینک دیتے ہیں، جس سے وہ بیچارے نڈھال ہو جاتے ہیں۔ مظاہرین پرامن انداز میں کھڑے ہیں، پولیس کی گاڑیاں آتی ہیں، ایک گاڑی آگے بڑھے چلی جاتی ہے اور سامنے کھڑے مظاہرین بڑی مشکل سے جان بچاتے ہیں۔ ایک امریکی فوجی نے پوسٹر اٹھایا ہوا تھا کہ میں ایسے ملک کے لیے نہیں لڑوں گا، جس کی گلیوں میں میرے کالے بھائیوں بہنوں کو قتل کیا جا رہا ہو۔

معروف تجزیہ نگار اور الجزیرہ کے مشہور پروگرام اپ فرنٹ کے میزبان مہدی حسن نے بہت خوبصورت ٹویٹ کی کہ اگر دنیا کے کسی خطے میں ایسے مظاہرے ہو رہے ہوتے اور ان پر یوں تشدد کا مظاہرہ ہو رہا ہوتا تو امریکی صدر اب تک رجیم چینج کا نعرہ لگا چکے ہوتے۔ امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دنیا بھر کے بارے رپورٹ جاری کرتا ہے، جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے، امریکہ میں پچھلے چند دنوں میں جس قدر انسانی حقوق کو کچلا گیا ہے، وہ ایک انسانی المیہ ہے۔ ہم ان امریکی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں، جو اس تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم دنیا کے اس خطہ میں ان کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھی بن کر رہنا، ہم آج مظلوم کا ساتھی بننے کا اعلان کرتے ہیں۔

امریکی صدر نے عوامی جذبات کو آگ لگانے کی کوشش کی، مظاہرین کو دھمکایا اور جب دیکھا کہ یہ تو بیک فائر کر گیا ہے، پھر بات چیت اور امن کی بات کرنے لگ پڑے۔ چھ دن گزر گئے، آزادی پسند اور مساوات کے داعی مظاہرین سراپا احتجاج ہیں۔ واشنگٹن کی مشہور یادگار کے آس پاس مظاہرین نے بھرپور احتجاج کیا۔ ابھی حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ انٹرنٹ سمیت تمام ذرائع رابطہ بند کر دیئے گئے ہیں۔ گذشتہ رات وائٹ ہاوس کے باہر شدید احتجاج ہوا۔ مظاہرین سے جگہ خالی کرانے کے لیے  بڑے پیمانے پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھویں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ پولیس نے مظاہرین کی آواز کو دبانے کے لیے  کرفیو لگا دیا۔ رات کو پہلی بار وائٹ ہاوس کی بیرونی تمام لائٹس آف کر دی گئیں۔  امریکی عوام کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ تہہ خانے میں چھپ گیا ہے۔ ڈوف گولڈمین نے لکھا کہ میں دہائیوں سے وائٹ ہاوس سے دو بلاک دور کام کر رہا ہوں اور رات کے دو بجے کے آس پاس گھر جاتا ہوں، میں نے کبھی بھی وائٹ ہاوس کی جگمگاتی روشنیوں کو یوں بند نہیں دیکھا تھا۔
خبر کا کوڈ : 865966
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش