0
Monday 1 Jun 2020 17:48

ننگی جمہوریت

ننگی جمہوریت
تحریر: ڈاکٹر سید محمد جواد شیرازی
Mjawad99@yahoo.com


یہ کیسی جمہوریت ہے، اگر کسی غریب ملک میں ہو تو اس کا اپنا قانون ہے اور اگر کسی امیر ملک میں ہو تو ایک اور ہی قانون ہے۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا احتجاج 70 سے زائد شہروں میں پھیل چکا ہے اور یہ احتجاجی مظاہرین وائٹ ہاوس تک جا پہنچے ہیں۔ یہاں تک تو ایک عام خبر تھی، جو کسی بھی ملک میں ہوسکتی ہے، لیکن اگر آپ امریکی صدر کا ٹویٹر اکاوںٹ ہی چیک کر لیں تو آپ کو ان مظاہروں کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔ گذشتہ کئی دنوں سے وائٹ ہاوس مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ کہیں امریکی صدر مظاہرین کو خونخوار کتوں اور کہیں مسلح محافظوں کے پاس موجود تباہ کن اسلحے سے ڈراتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے معروف ٹی وی چینلوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں اور دوسرے دن اپنے مسلح گارڈز کو شاباش بھی دیتے ہیں کہ رات کو مظاہرین سے انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے نمٹا گیا۔

چلیں یہ تو ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے، جس کو جمہوریت کا علمبردار کہا جاتا ہے۔ اگر یہی لیبیا ہوتا اور بیان دینے والا معمر قذافی تو اسی امریکی صدر کی وہاں کی عوام کے بارے میں کیا رائے ہوتی یا دور نہیں ابھی کچھ ماہ قبل ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہونے والے عوامی احتجاج پر انہی میڈیا ہاوسز پر مسلسل پروگرام نشر ہو رہے تھے، جنہیں آج امریکی صدر جھوٹ کا پلندہ کہہ رہے ہیں اور امریکی صدر بھی ایران میں مظلوم عوام کے حق میں بار بار تقریریں کر رہے تھے اور ایرانی عوام کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم اس ظالم حکومت کے خلاف ہیں، جو عوام کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے،کیونکہ اعتراض کرنا کسی بھی ملک کے شہری کا قانونی حق ہے۔

امریکی صدر محترم یہ جمہوریت ہے اور وہ عوام جن پر کتے چھوڑ رہے ہیں، انہی کے ٹیکسز سے آپ کا یہ محل (وائٹ ہاوس) بنا ہوا ہے اور اسی عوام کے ٹیکس سے وہ اسلحہ خریدا گیا ہے، جس سے آپ عوام کو ڈرا رہے ہیں اور وہ تمام فوجی جو امریکی صدر کی حفاظت پر مامور ہیں، وہ بھی امریکہ کے قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔ امریکہ کے قانون کے مطابق ان کو احتجاج کا پورا حق ہے اور اب اگر روس یا چین کا صدر مظاہرین سے اظہار ہمدردی کرے تو اس کو بیرونی مداخلت بالکل نہ سمجھیے گا اور اگر ایرانی صدر یہ کہہ دے کہ ہم اس ننگی جمہوریت کی جگہ اسلامی نظام امریکہ میں لانا چاہتے ہیں، کیونکہ اسلام میں رنگ، نسل اور قوم کی کوئی تفریق نہیں، سب برابر ہیں، اس لئے اسلامی نظام دنیا میں وہ واحد نظام ہے، جس میں مساوات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے تو اس تجویز کو بھی زیر غور لایئے گا۔

یہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے، دنیا کے ہر ظالم کو اپنے انجام کو پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ قتل عام جو تیل اور یہودی قبضے کے لیے تم نے عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور اردن میں بہایا ہے، اس کا حساب بھی چکانا ہے اور وہ قول کہ مظلوم پر ظالم کے دن سے ظالم کے حساب کا دن بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اب امریکی اقتدار کا جنازہ نکل چکا ہے اور اس کے تابوت میں پہلا کیل اسلامی جمہوریہ ایران نے عراق میں موجود اس کے فوجی اڈے پر راکٹ حملہ کرکے ٹھونک دیا ہے اور اس کے جواب میں امریکی صدر نے جوابی حملے کی جگہ پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا، جو کہ گذشتہ دنوں ایران نے وینزویلا کو تیل سپلائی کرکے تمام امریکی پابندیاں سمندر میں بہا دی ہیں۔

اب دوسرے اسلامی ملک بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم تو ایران سے بھی زیادہ طاقتور ملک ہیں، پھر ہم کیوں امریکہ کے غلام سعودی عرب سے بھی ڈرتے ہیں اور اپنے ملکی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ امریکی غلامی کو ہی اختیار کرتے ہیں؟ جبکہ ایران جیسے ملک نے نہ تو امریکی حملوں اور فوج کی پرواہ کی اور نہ ہی اقتصادی پابندیوں سے کبھی خوفزدہ ہوئے اور آج ان تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور مضبوط ملک ہے، جو امریکہ کے دوست اتحادی یا پھر غلام تھے۔
خبر کا کوڈ : 865979
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش