0
Tuesday 2 Jun 2020 21:35

خونخوار بھیڑیا زخمی ہے۔۔۔۔

خونخوار بھیڑیا زخمی ہے۔۔۔۔
تحریر: توقیر ساجد کھرل

امریکہ میں سیاہ فاموں کا قتل اب معمول بن چکا ہے۔ حالیہ احتجاجات صرف ایک قتل نہیں بلکہ امریکہ کی نسلی تعصب پہ مبنی چار سو سالہ تاریخ کا شاخسانہ ہیں۔
امریکی صدر اوبامہ کے عہد میں "سیاہ فاموں کی جان بھی قیمتی ہے" کے شعار سے ایک تحریک نے نسل پرستی کے خلاف احتجاجات کیے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے،  حالیہ تحریک میں مظاہرین صرف ایک قتل کے خلاف نہیں بلکہ قتل کے پیچھے چھپے امریکی معاشرہ میں نسل پرستی اور تعصب کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اِن مظاہروں کے بعد دوسرے ممالک اور مشرق وسطیٰ کے چودھری انکل سام نے مظاہروں کا ذمہ دار خطہ کے دوسرے ممالک کو ٹھہرایا ہے، جبکہ عالمی رائے عامہ نے اس الزام کو محض مذاق قرار دیا ہے۔

حالیہ تحریک کا شعار بھی وہی ہے، جو پہلے تھا۔ احتجاجات میں شدت نظر آتی ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکی صدر کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور بالخصوص ان کے سوشل میڈیا کے ٹویٹر سے متعصبانہ ٹویٹس نے مظاہرین کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ ٹرمپ کے ہمدردوں نے امریکی صدر کو ٹویٹ کرنے سے روکا بھی ہے۔ گذشتہ روز بھی ٹرمپ نے بائبل اٹھا کر قسم اٹھائی کہ مظاہرین سے نمٹا جائے گا۔ امریکی صدر کا یہ جارحانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مظاہرین کی بات اور تحریک کے مقصد کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں انسان کُش وبا کورونا کے پھیلاو کے دوران بھی سفید فاموں کی نسبت سیاہ فاموں کی اموات زیادہ ہوئی ہیں، جس کی بڑی وجہ سیاہ فاموں کے لیے تعصبانہ پالیسیوں کے باعث صحت کی سہولیات کا فقدان قرار دیا گیا ہے۔

ایک عربی کالم نگار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت کی مثال زخمی بھیڑیئے کی طرح ہے، جو مرنے کے قریب ہے اور اب صرف ہاتھ پاوں مار رہا ہے، لیکن کچھ کر نہیں پا رہا، یعنی ٹرمپ کا کوئی واضح اصول نظر نہیں آرہا کہ جس کو وہ حاصل کرسکے۔ امریکہ کے علاوہ یورپی ممالک میں بھی احتجاج ہوئے ہیں۔ عالمی مبصرین امریکہ میں اس تحریک کے بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تک سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے کوئی ہمدردانہ پالیسی نہیں اپنائی جاتی، تحریک کی طاقت کا شیر اس زخمی بھیڑیئے کو آسانی سے نِگل بھی سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 866259
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش