1
Wednesday 3 Jun 2020 22:16

مارٹن لوتھر کنگ کا ادھورا خواب

مارٹن لوتھر کنگ کا ادھورا خواب
تحریر: سید اسد عباس

امریکہ میں پولیس تحویل میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاہ فام افراد کے ساتھ پولیس کے امتیازی رویئے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے آٹھویں روز بھی جاری رہے اور ان مظاہروں کا دائرہ کئی شہروں تک پھیل چکا ہے۔ ان مظاہروں میں پرتشدد واقعات کے بعد 40 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، تاہم متعدد شہروں میں مظاہرین کرفیو کے باوجود باہر نکلے ہیں۔ اس کے علاوہ جارج فلائیڈ کے آبائی شہر ہیوسٹن میں آج ان کے گھر والوں کے ساتھ ایک پرامن مارچ کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں 20 ہزار شرکاء متوقع ہیں۔ امریکہ کے علاوہ یورپ کے متعدد شہروں جیسے کہ پیرس اور لندن میں بھی جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی ظلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ 25 مئی کو شہر مینیئیپولس میں جارج فلائیڈ کو گرفتار کرنے کے دوران پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوگئی۔ اس واقعے اور مظاہروں کے بعد ریاست مینسوٹا نے اپنے محکمہ پولیس کے خلاف سول رائٹس کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ گورنر ٹم والز نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اس مقدمے کا مقصد کئی نسلوں سے جاری منظم نسل پرستی کو ختم کرنا ہے۔

دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 1600 فوجیوں کو شہر کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ فوجی تعیناتی کا مقصد سولین حکام کے جاری آپریشنز میں ان کی مدد کرنا ہے۔ جہاں کئی مقامات پر یہ مظاہرے پرتشدد ہوگئے ہیں، وہیں کچھ شہروں میں پولیس اور فوجی اہلکاروں نے مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا ہے اور ان کے ساتھ مارچ کیا یا احتجاج میں علامتی طور پر گھٹنے ٹیکے ہیں۔ ہینیپین کاؤنٹی میڈیکل اگزیمینر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جارج کا سانس رکنے کی وجہ سے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ جارج کی گردن پر گھٹنا ٹیکنے والے پولیس افسر ڈریک شیوان پر غیر ارادی قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ اگلے ہفتے عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کے ساتھ تین دیگر پولیس افسران کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے، لیکن پولیس تحویل میں جارج کی ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہروں میں ایسے پرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی مثال کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔

پولیس کے سربراہ کرنل جان ہیڈن جونیئر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا بعض بزدلوں نے پولیس افسروں پر گولیاں چلائیں اور ہمارے چار لوگ ہسپتال میں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اس کے علاوہ نیو یارک کے معروف ڈیمپارٹمنٹل سٹور میسیز کو توڑ کر لوگ اس میں گھس گئے اور انہیں لوٹ لیا گیا جبکہ دوسری کئی دکانوں اور بینکوں کے شیشے توڑ دیئے۔ اس معاملے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور شہر میں منگل کو رات آٹھ بجے سے دوبارہ کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔ فلائیڈ کی ہلاکت نے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل اور نسل پرستی کے گہرے زخم کو تازہ کر دیا ہے، جو کئی دہائیوں سے مرہم کا منتظر ہے۔ اس سے قبل بھی کئی ایک سیاہ فام سفید فام پولیس افسران کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ سیاہ فام امریکا کی غریب آبادی کا حصہ ہیں، جن کی اکثریت بنیادی وسائل زندگی سے محروم ہے۔

امریکا میں جاری حالیہ پرتشدد مظاہروں کا تعلق فقط فلائیڈ کی ہلاکت سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے دہائیوں سے جاری سماجی و معاشی عدم مساوات اور مختلف نسلوں کو امتیازی بنیادوں پر الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہونے والی مایوسی ہے، نیز کرونا کے باعث امریکا مین پیدا ہونے والا معاشی بحران اور روزگار کے مواقع میں کمی بھی ہے۔ سیاہ فام طبقے کا غم و غصہ فلائیڈ کی ہلاکت سے دو آتشہ ہوگیا اور انہوں نے اپنی ہی حکومتوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان بغاوت فقط نسل پرستی کے خلاف نہیں بلکہ امریکا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی ہے، جس میں غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہو رہا ہے۔ امریکا کے سیاہ فام شہریوں کی آزادی اور مساوات کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے، یہ انسانی حقوق امریکی سیاہ فام شہریوں نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سرکردگی میں 1964ء میں حاصل کیے تھے، تاہم امریکا کے سفید فام نسل پرستوں نے ان حقوق کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہ کیا، جس کے مظاہر آئے روز امریکی معاشرے میں دکھائی دیتے ہیں۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی معروف تقریر میرا ایک خواب ہے، جس میں انہوں نے نسلی امتیاز سے پاک ایک امریکی معاشرے کا تصور پیش کیا تھا، آج بھی ادھورا ہے۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں لوتھر کے خواب کو پذیرائی دی گئی، تاہم نسلی امتیاز جو خون اور مزاج کا حصہ تھا، اپنے رنگ دکھاتا رہا اور سیاہ فام مارٹن لوتھر کا خواب مکمل سچ نہ ہوسکا۔ یہ خواب آج بھی ادھورا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا میں کس جانب سے مارٹن لوتھر کنگ ابھرتا ہے اور سیاہ فام امریکی شہریوں نیز دیگر پسے ہوئے طبقات کو ان کے حقوق کی جدوجہد میں راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ امریکا جو دنیا میں مساوات، جمہوریت، اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتا، اب اپنے گھر کی آگ سے صرف نظر نہیں کرسکتا ہے۔ امریکی حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کو اپنے رویئے میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی، کیونکہ آج کا امریکا کرونا سے قبل کا امریکا نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 866464
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش