0
Thursday 4 Jun 2020 09:40

امام خمینی (رہ) اور انسانی وقار و عظمت(2)

امام خمینی (رہ) اور انسانی وقار و عظمت(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امام خمینی کے پروقار اور باصلاحیت ہونے کی ایک وجہ ان کی کم گوئی اور اضافی گفتگو سے پرہیز تھا۔ حجۃ اسلام دوانی آپ کی گفتگو کے مختصر اور کم گوئی کے بارے میں کہتے ہیں کہ امام بہت آرام، آہستہ اور انتہائی پروقار انداز سے گفتگو کرتے تھے۔ اگر کسی محفل میں جاتے تو جب تک کوئی ان سے گفتگو نہ کرتا، آپ مکمل خاموش رہتے، یہاں تک کہ جس جگہ بیٹھتے وہیں بغیر زیادہ حرکت کیے آرام سے بیٹھے رہتے۔ آیت اللہ سبحانی اس خصوصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام خمینی کم گو تھے، لیکن جب بولتے تو انتہائی مختصر اور جامع گفتگو کرتے، عام طور پر خاموشی اختیار کرتے اور خاموش طبع انسان تھے۔

حجۃ الاسلام امام جمارانی نے اخبار جمہوری اسلامی میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ امام کی شخصیت ایک باوقار اور سنجیدہ شخصیت تھی، آپ کے چہرے پر ایک خاص رعب و دبدہ تھا جبکہ دوسری طرف آپ انتہائی منکسر المزاج بھی تھے۔ اکثر اوقات خاموش رہتے، کم گفتگو کرتے، کوشش کرتے ضرورت سے زیادہ گفتگو نہ کریں، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا آپ ناپ تول کر حرف ادا کرتے تھے۔ تقاریر اور خطابات کے علاوہ عمومی محفلوں میں کم شرکت کرتے اور زیادہ سوچ و فکر میں ڈوبے نظر آتے، وہ اپنے وقت سے بھرپور استفادہ کرتے اور محفل میں بیٹھ کر بھی سوچ و فکر میں مشغول رہتے۔ امام خمینی کی شخصیت اتنی باوقار اور باعظمت تھی کہ آپ کے مخالفین بھی متاثر ہوئے بغیر نہِیں رہتے تھے۔ آپ کا سخت سے سخت مخالف بھی پہلی ملاقات میں منقلب ہو جاتا اور امام خمینی کے بارے میں اس کی رائے میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی۔

مصر کے معروف تجزیہ نگار حامد الگار ایک ترک صحافی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے ترکی کے ایک سیکولر اخبار میں ایک مقالہ پڑھا، اس مقالہ کا مصنف دیگر ترک تجزیہ نگاروں کی طرح انقلاب سے پہلے امام خمینی کے خلاف بہت غلط باتیں لکھ چکا تھا، انقلاب کے بعد جب اس کی امام سے ملاقات ہوئی تو وہ خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں نے ملاقات سے پہلے کئی سوالات اور اعتراضات ذہن میں ترتیب دے رکھے تھے، لیکن میں جونہی آیت اللہ خمینی کے پاس پہنچا تو میں اپنے آپ کو شرمندہ اور بدحواس محسوس کرنے لگا، مجھے اپنے تمام سوالات و اعتراضات بے معنی اور فضول محسوس ہوئے اور میں اس بات کو ترجیح دی کہ سوال کرنے کی بجائے ان کی گفتگو کو غور سے سنوں۔ یہ صحافی کہتا ہے کہ امام خمینی کی موجودگی میں مجھے اس کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہا، سوائے اس کے کہ میں نے امام خمینی سے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر نصحیت کریں اور امام خمینی نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو پہچانو اور اسلامی تعلیمات و عبادات پر عمل کرو۔

امام خمینی کی پروقار اور بارعب شخصیت اس بات کا باعث بنتی کہ آپ کی ہر بات سننے والے پر گہرا اثر چھوڑتی۔ بہت سے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کئی افراد جو آپ کی بات اور زبان کو نہیں سمجھ سکتے تھے، وہ صرف آپ کے لب و لہجہ اور شخصیت سے متاثر ہو جاتے تھے۔ امام خمینی کے ساتھ فرانس کے دیہات نوفل لوشاتو میں ملاقات کرنے والے ایک ایرانی عالم دین کا کہنا ہے کہ فرانس کے کچھ طالبعلم اکثر اوقات نوفل لوشاتو میں امام خمینی کی خدمت می آتے، حالانکہ وہ فارسی سے آشنا نہ تھے۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تمھیں فارسی بھی نہیں آتی اور ہمیشہ امام خمینی کی گفتگو کا فرنچ ترجمہ بھی نہیں ہوتا، جب آپ کو کچھ سمجھ بھی نہیں آتی تو آپ کس لیے امام کی تقریر یا گفتگو سننے آجاتے ہو۔ ان فرانسیسی طلباء کا جواب تھا کہ ہمیں فارسی نہیں آتی اور امام خمینی کی گفتگو بھی سمجھ نہیں پاتے، لیکن ہم جب بھی ان کی گفتگو سنتے ہیں تو ہمارے قلب و روح کو ایک عجیب سا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

امام خمینی کی شخصیت کے رعب و دبدبے اور پروقار ہونے کا ایک معروف واقعہ ہے کہ جب اس زمانے کی سپرپاور سویت یونین کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورڈ نائزے امام خمینی کے پاس گوربا چوف کے نام خط کا جواب لے کر آئے تو حجۃ السلام رحیمیان کے بقول امام خمینی کے سامنے اس خط کا جواب پڑھتے ہوئے سوویت یونین کے وزیر خارجہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ آپ کے سامنے جب تک رہا، ایک بے حس اور مجسمے کی طرح بیٹھا رہا۔ امام خمینی کی پروقار اور بارعب لیکن انتہائی پرکشش شخصیت کے بارے میں ایران کے اندر اور ایران سے باہر دوست و دشمن سب اعتراف کرتے ہیں اور آپ کی اس باوقار اور پرکشش شخصیت کے پیچھے وہ ایمان اور تقویٰ تھا جس سے آپ مالامال تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 866517
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش