1
Thursday 4 Jun 2020 14:36

امام خمینی (رہ) کی شخصیت پر عالمانہ تبصرہ

امام خمینی (رہ) کی شخصیت پر عالمانہ تبصرہ
تحریر: ذاکر حسین میر

عصر حاضر کی واحد نظریاتی، مثالی اور اسلامی حکومت کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای، امام خمینی کے انتہائی قریبی، نظریاتی، حقیقی اور سچے سپاہی ہیں۔ وہ نہ صرف امام کی زندگی میں ان کے الہیٰ مشن کے ساتھ وفادار رہے بلکہ رحلت کے بعد بھی ان کے نظریات، افکار اور اہداف کی درست ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے امام کے جانشین کے طور پر سفینہ انقلاب کو تمام اندرونی اور بیرونی حملوں سے محفوظ رکھا۔ اپنی شجاعت، بصیرت اور دور اندیشی کے ذریعے انقلاب اسلامی کو بیگانوں کی مداخلت سے پاک رکھا اور مرحوم امام کے نظریات و افکار کی روشنی میں انقلاب اسلامی کو ترقی اور کمال کے راستے پر گامزن رکھا۔ امام خمینی کی اکتیسویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی کی شخصیت کے چند اہم پہلووں پر عالمانہ اور حکیمانہ تجزیہ پیش کیا اور انہیں عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ انقلاب، تبدیلی، بیداری، حرکت اور تحول کا جذبہ مرحوم امام کی نمایاں خصوصیات میں سے تھا۔ امام اپنی انقلابی تحریک کے آغاز سے پہلے ہی جوانوں میں چھپے ہوئے معنوی اور الہیٰ کمالات کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے اور یہ انقلاب اسلامی کی تحریک سے دس سال پہلے کی بات ہے کہ امام اسی خصوصیت کے ساتھ حوزہ علمیہ قم میں پہچاننے جاتے تھے۔ ان کے فرامین اس قدر موثر تھے کہ جب درس دیتے تھے تو لوگ زار و قطار روتے تھے اور ان میں ایک معنوی اور انقلابی روح نظر آتی تھی، یہ وہی پیغمبران الہیٰ کی سیرت اور خصوصیات ہیں، جن کی ایک جھلک مرحوم امام میں نظر آتی تھی۔ امام اپنی فطرت میں تبدیلی کے طلبگار تھے اور ساتھ ہی تبدیلی لانے کا جذبہ بھی ان کے اندر موجزن تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ "تبدیلی اور تحول" کے امام تھے۔ اس حوالے سے ان کا کردار محض ایک استاد اور معلم کا نہیں تھا بلکہ ایک نڈر، شجاع اور بےباک کمانڈر اور رہبر کا تھا، جس نے لوگوں کی فطرت میں موجود تبدیلی کی خواہش کو درست سمت دی اور ان میں پنہان تبدیلی کے جذبہ کو مطالبہ کے مرحلہ تک پہنچا دیا۔ امام نے چند ایک اہم میدانوں میں تبدیلی کی بات کی اور عملاً انہی میدانوں میں تبدیلی لانے میں کامیاب بھی ہوئے۔

انہوں نے اس قوم کو جو صرف اپنی پرسنل لائف کے بارے میں سوچتی تھی اور ان کے مطالبات سٹرک یا گلی کوچوں کی مرمت سے آگے نہیں بڑھتے تھے، اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے پوری شجاعت اور طاقت کے ساتھ میدان میں اترے۔ امام نے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کے سامنے لوگوں کی پستی، ذلت اور حقارت کی بدترین صورتحال میں بھی تبدیلی کی بات کی اور انہیں خود اعتمادی، عزت اور کرامت کا درس دیا، جس نے بعد میں ملک کی تقدیر کو بدلنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ انہوں نے لوگوں میں موجود تبدیلی کے معمولی جذبہ کو استقلال، آزادی اور پھر ایک نئی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کی خواہش میں تبدیل کیا۔ اگر چہ لوگ تبدیلی کے لئے سرگرم تھے اور چھوٹے یا بڑے گروہوں کی شکل میں ہر محاذ پر اس مقصد کے لئے لڑ رہے تھے، لیکن ان میں اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک واضح ہدف نہیں تھا اور نہیں جانتے تھے کہ ہم نے آگے جاکر کرنا کیا ہے! لیکن امام نے اس مبہم تحریک کو ایک باہدف، واضح اور عالمگیر شکل دی، جو بعد میں امت اسلامی اور ماڈرن اسلامک سیویلائزیشن کی تشکیل کا سبب بنی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ جوانوں کو مین سٹریم میں لانا اور انہیں اہم ترین ذمہ داریاں سونپنا بھی امام کے اسی تبدیلی کے جذبہ کی عکاسی ہے۔ امام جوانوں کو ملت کا عظیم سرمایہ سمجھتے تھے اور معتقد تھے کہ اس سرمایہ سے جتنا ہوسکے، فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ انہوں نے عملی میدان میں بھی باصلاحیت جوانوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی۔ امام کی تبدیلیوں کا ایک اہم محور دین کے حوالے سے لوگوں کی سوچ کو بدلنا تھا۔ لوگ دین کو ایک پرسنل ایشو سمجھتے تھے۔ وہ نماز، روزہ، حج، زکات اور خمس کو ہی دین سمجھتے تھے، لیکن امام نے دین کو تمدن سازی، جامعہ سازی اور انسان سازی کا ذریعہ قرار دیا۔ ساتھ ہی ان لوگوں کے مقابلہ میں جو دین کو چند نعروں تک محدود سمجھتے تھے یا آیندہ کے حوالے سے گہری نظر نہیں رکھتے تھے، دین کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا، جس نے آگے جاکر لوگوں میں ایک نئے اسلامی تمدن کے لئے قدم اٹھانے کا جذبہ پیدا کیا۔

امام نے دنیا کی سپر پاورز کے حوالے سے لوگوں کی نگاہ کو بھی یکسر تبدیل کر دیا۔ ایک زمانہ تھا، جب لوگ دنیا پر حاکم طاقتوں کے خلاف ایک لفظ بولنے کی جرات نہیں رکھتے تھے اور تجاوز، ظلم اور من مانی چلانے کو امریکیوں کا پیدائشی حق سمجھتے تھے، جیسا کہ آج بھی بہت سارے ملکوں میں یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگ یہ حق صرف امریکیوں کو دیتے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں، اپنی فوجیں اتار دیں، ایٹمی اسلحہ رکھیں، جس ملک پر چاہیں حملہ کریں، دنیا کے جس خطہ میں چاہیں پراکسی جنگ لڑیں اور جیسے چاہیں دوسروں کے  وسائل لوٹ لیں اور اگر یہی کام کوئی دوسرا ملک کرتا ہے تو ہر طرف سے اعتراضات اور احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ امام نے خود کمال شجاعت اور جرات کے ساتھ امریکیوں کے خلاف زبان کھولی اور لوگوں کو بھی ان کے مظالم کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق سیکھایا اور اس بڑی تبدیلی کے نتیجہ میں امریکہ ذلیل و رسوا ہوا اور دنیا نے ایک ایسی تبدیلی کا مشاہدہ کیا کہ اب لوگ بغیر کسی خوف اور جھجک کے ان کے خلاف بولتے ہیں، سڑکوں پر آتے ہیں اور کھل کر امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔

امام کی ایک اور انقلابی تبدیلی دینی علوم میں قابل مشاہدہ ہے۔ فقہ اور اصول کے میدانوں میں تعبد کے بنیادی اصل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے علماء اور دانشمندوں کو نت نئے پہلووں سے آشنا کیا۔ انہوں نے فقہ اسلامی کو نظام سازی کے مرحلہ میں داخل کیا۔ ولایت فقیہ کے نظریہ کو اس کی تمام جزئیات کے ساتھ اور اسی طرح مصلحت نظام یا منافع عمومی کو فقہ کے اہم ترین مسائل میں سے قرار دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب کے بعد ملک میں آنے والی بہت ساری تبدیلیوں کو امام کی انہی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ملک میں علمی، سیاسی اور دفاعی میدانوں میں جو حیرت انگیز ترقی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ اسی انقلابی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے "ارتجاع" (پستی کی طرف پلٹنا) کو انقلاب، تبدیلی، ترقی، درست سمت میں حرکت اور خلاقیت کا نقطہ مقابل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام کی ترقی ہو یا پسماندگی، دونوں ان کے ارادوں اور تبدیلی کے جذبہ سے مربوط ہیں۔ جن قوموں میں آگے بڑھنے، تبدیلی لے آنے اور انقلاب برپا کرنے کا جذبہ موجود ہو، وہ ہمیشہ آگے بڑھیں گئیں، لیکن جن میں یہ جذبات عنقا ہوں، وہ ہمیشہ پستی اور زوال کا شکار ہوں گی۔

اپنی کامیابیوں پر قانع رہنا، تبدیلی کے لئے کسی شکست کے انتظار میں رہنا، غلط اور غیر منطقی چیزوں پر مصر رہنا اور مایوسی وغیرہ کو آیت اللہ خامنہ ای نے تحول اور تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا، جبکہ نظریاتی اور فکری سپورٹ، مضبوط دینی و اسلامی بنیاد، مستحکم ایمان اور انقلابی تبدیلی کی خواہش کو تبدیلی کے راستے میں کامیابی کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے بعض ایسے جوانوں کا حوالہ بھی دیا، جو ابتدا میں بڑے انقلابی، مومن اور متحرک تھے، لیکن مضبوط فکری اور نظریاتی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے کچھ آگے چلنے کے بعد منحرف ہوگئے، نہ صرف منحرف ہوگئے بلکہ دشمن کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے۔ اپنی تقریر کے آخری حصہ میں آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کی موجودہ صورتحال پر بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک سیاہ فام شہری کو گردن دبا کر مار دینا جبکہ وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں کا تماشائی بنے رہنا کوئی نئی بات نہیں ہے؛ تشدد، ظلم، مار پیٹ، قتل و غارتگری اور خشونت امریکیوں کی سرشت میں ہیں؛ اس سے پہلے افغانستان، عراق، شام اور ویتنام میں بھی اسی طرح کے مظالم کر بیٹھے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم سانس بھی نہیں لے سکتے" کا جو نعرہ آج امریکہ میں بلند ہے، وہ ان تمام ملتوں کا نعرہ ہے، جو امریکیوں کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ البتہ انہی سیاہ کارناموں کی وجہ سے آج امریکہ دنیا بھر میں ذلیل اور رسوا ہوچکا ہے۔ وہ جو حقوق بشر کے علمبردار ہیں، اس وحشیانہ اقدام کے ذریعے ایک سیاہ فام کو قتل کرتے ہیں، پھر اس پر پشیمان بھی نہیں ہوتے، گویا وہ سیاہ فام انسان ہی نہیں تھا اور حقوق بشر میں اس کا کوئی حق تھا ہی نہیں! اس صورتحال نے جہاں خود امریکیوں کو رسوا کیا ہے، وہاں اندرون اور بیرون ملک امریکیوں کے دفاع میں وقتاً فوقتاً لکھنے اور بولنے والوں کا منہ بھی بند کر دیا ہے۔ یہ حوادث امریکہ میں پنہا بہت سارے حقایق کو برملا کر رہے ہیں اور حکومت کی ناکام پالیسیوں اور ملک میں حاکم بدنظمی کی وجہ سے امریکی عوام کو دنیا بھر میں حقارت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس دور کی سب سے بڑی خمینی شناس شخصیت کا کہنا ہے کہ تبدیلی، انقلاب اور تحول کے جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عظیم درس ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اگر ہم امام کے راستے پر گامزن رہیں تو ہمارا انقلاب ہرگز جمود کا شکار نہیں ہوگا۔ البتہ انقلابی تبدیلی اور دشمن پر غلبہ پانے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم زندگی کے تمام شعبوں میں جوانوں کی شرکت کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنے آج اور کل کے لئے امام کے فرامین کے محتاج ہیں، رحلت کے کئی سال گزرنے کے بعد بھی امام زندہ ہیں اور انہیں اسی طرح زندہ رہنا چاہیئے، تاکہ ہم ان کے معنوی وجود اور بلند افکار سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں۔
خبر کا کوڈ : 866577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش