0
Thursday 4 Jun 2020 10:49

امریکی نظام جوابدہ ہے

امریکی نظام جوابدہ ہے
اداریہ
امریکہ میں جو اشتعال پھیلا ہوا ہے، اس کو تنگ آمد بجنگ آمد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، ٹرامپ، بولٹن اور ڈک چینی جیسے نئوکانز نے آج امریکہ کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ سیاہ فاموں کے ساتھ ساتھ سفید فام بھی حکومت مخالف جلاو گھیراو میں مشغول نظر آتے ہیں۔ اس افراتفری اور ناامنی کا نتیجہ جو بھی ظاہر ہو، امریکی نظام کا داخلی کھوکھلا پن کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مضبوط اقتصاد، مضبوط دفاع، مضبوط سماجی نظام، مضبوط صحت عامہ کا سسٹم اور نہ جانے کیا کیا مضبوط تھا، لیکن آج امریکی شہروں کے گلی کوچے میں ’’ہمیں سانس لینے دو‘‘ کے نعرے تمام ترقی اور پیشرفت کے دعووں پر خطِ بطلان کھیچتے نظر آرہے ہیں۔

جہاں سب سے بنیادی حق یعنی زندہ رہنے کا حق غیر محفوظ ہو، وہاں سہولیات، آسائشیں اور آسانیاں کیا معنی رکھتی ہیں۔؟ چالیس ملین سے زائد بے روزگار، کرونا سے لاکھوں ہلاکتیں، کھربوں کے بیرونی قرضے اوپر سے یونی پولر نظام کے دعوے، انسان سوچتے سوچتے پریشان ہو جاتا ہے۔ اب ایک سیاہ فام شہری کا گُھٹنے سے گلا دبانے پر امریکی شہری گلیوں میں نہیں آئے ہیں، بلکہ یہ وہ لاوا ہے جو امریکی باشندوں کے قلب و ذہن میں عرصے سے پک رہا تھا۔ آج امریکہ پر بھروسہ کرنے والے ممالک پر ٹرامپ سے زیادہ سراسیمگی طاری ہے۔ ان کا خوف صحیح ہے، کیونکہ جو اپنے ملک کو فوج اور نیشنل گارڈز کے حوالے کر رہا ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں آکر خاندانی ڈکٹیٹروں کو کیسے نجات دیگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں بڑے اچھے انداز سے امریکی انتظامیہ اور اُس کے پیچھے موجود سرمایہ دارانہ نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ نے ویت نام میں ویت نامیوں کے لیے سانس لینا مشکل بنا دی تھی۔ فلسطین میں اسرائیل کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ افغانستان کا بگرام فوجی اڈہ ہو یا عراق کا ابوغریب ٹارچل سیل، امریکیوں نے جہاں اپنے منحوس قدم رکھے، وہاں انسانیت کے لیے سانس لینا مشکل ہوگیا۔ شام، لیبیا، یمن، فلسطین، بحرین سمیت کئی خطے امریکی جرائم کیوجہ سے پکار رہے ہیں کہ ’’سانس لینے دو۔‘‘ سانس لینے کا ایک راستہ ہے کہ جس نے گھٹنہ گردن پر رکھا ہوا ہے، اس کی گردن اور گھٹنے کو اڑا دیا جائے، دوسری صورت میں دنیا کو اپنی گردنوں کو سامراجی گھنٹوں کے دباو اور سانس گھٹنے کیلئے آمادہ رہنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 866585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش