0
Sunday 7 Jun 2020 16:56

انگریزی زبان (English) اور ہم

انگریزی زبان (English) اور ہم
تحریر: مظفر حسین کرمانی

عصر حاضر میں انگریزی زبان بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ اس وقت ایک بین الاقوامی (International) زبان بن چکی ہے۔ اگر آپ اپنے افکار کسی دوسری قوم تک منتقل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک بہترین ذریعہ زبان ہوتی ہے، چونکہ انگریزی اس وقت ایک بین الاقوامی زبان کا درجہ رکھتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس زبان کو سیکھیں، تاکہ افکار اسلامی و الہیٰ جو کہ بشریت کی نجات کا باعث ہیں، انہیں دنیا کی تمام اقوام تک پہنچا سکیں۔ لیکن یاد رہے کہ کوئی بھی زبان اس چابی کی مانند ہے، جس کے لگاتے ہی کسی ہال یا کمرے کا دروازہ کھل جاتا یے اور اس میں موجود اشیاء بھی ہمارے معرض دید اور نگاہ میں آجاتی ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ہم افکار اسلامی سے بھی کامل یا تو حد درجہ آشنائی رکھتے ہوں، وگرنہ ایسا نہ ہو کہ بجائے دوسروں کو الہیٰ سمت راغب و متوجہ کرنے کے ہم خود ان فاسد افکار کا حصہ بن جائیں، جو اس زبان میں پیش ہوئے ہیں۔

ہند و پاک میں انگریزی زبان ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل زبان ہے، یہاں اسے زبان کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ اس زبان سے آشنائی دوسروں کی نسبت اس فرد کی قابلیت تصور کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے بزرگان خواہ وہ گھر کے افراد، رشتے دار یا پھر اساتید ہوں، وہ ہمیں اس زبان کی طرف رغبت دلانے کے لئے کہتے تھے کہ فلاں کو دیکھو کتنا قابل یے، فر فر انگریزی بولتا یے۔ یعنی ان کے مطابق کسی فرد کی قابلیت کا معیار انگریزی زبان کا روانی کے ساتھ بولنا تھا۔ ہمارے ہاں ایک فرد بہترین انداز میں کوئی تقریر یا اپنی علمی قابلیت ظاہر کرے تو وہ انگریزی میں کرتا یے۔ اگر اس سے کہا جائے کہ اسی بیان کو اب اردو می‍ں کہیں تو جیسے سانپ سونگھ جاتا یے۔

آج بھی ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو یہاں اگر کوئی انگریزی بولتا یے تو وہ اپنے اوپر فخر محسوس کرتا یے، خود کو دوسروں پر برتر گردانتا ہے اور معاشرے کے دوسرے افراد بھی اسے ایک قابل اور تعلیم یافتہ فرد تصور کرتے ہیں۔ ہم جب تک اپنی گفتگو میں انگریزی زبان کے الفاظ استعمال نہ کریں، سمجھتے ہیں کہ کوئی نقص لازم آگیا ہے۔ اس لئے اپنی گفتگو میں دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنے آپ کو تسکین قلبی پہنچانے کیلئے اس زبان کے الفاظ استعمال کرنا لازم سمجھتے ہیں۔ حتٰی ہم جو تحریر لکھتے ہیں یا کسی سے تحریری گفتگو کرتے ہیں تو وہاں بھی اردو حروف تہجی کی جگہ انگریزی حروف تہجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ایسے ہیں جو اردو لکھ ہی نہیں سکتے یا اگر لکھنا جانتے بھی ہوں تو اس میں لکھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔

یہ حالت ہوگئی ہے کہ اردو زبان ہماری قومی زبان ہونے کے باوجود اس کے الفاظ و مفاہیم سے ہماری آشنائی نہیں ہے، بلکہ اس کی جگہ انگریزی زبان کے الفاظ کو جایگزیں کرکے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی اسی لفظ کو اردو میں بولے تو حیرت سے اسے دیکھتے ہیں، گویا اس نے کوئی چائنیز (Chineses) زبان کا لفظ استعمال کرلیا ہو۔ ہمارے گمان باطل میں یہ بیٹھ گیا ہے یا بٹھا دیا گیا یے کہ اگر اردو زبان اور اس کے الفاظ استعمال کرو گے تو معاشرے میں تعلیم یافتہ فرد تصور نہیں کئے جاؤ گے، جبکہ زبان کسی بھی جگہ قابلیت کا معیار نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی زبان اپنے افکار دیگر اقوام تک منتقل کرنے یا دیگر زبانوں میں جو علوم و معارف ہیں، ان سے آشنائی کیلئے سیکھی جاتی ہے۔

وہ افراد جو ہمارے معاشرے میں وطنیت کا منجن بیچتے ہیں، مثلا حکمران، نام نہاد دانشور حضرات خواہ مرد ہوں یا خواتین، سب انگریزی زبان بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ حتٰی ہمارے سارے اداراتی و حکومتی خطوط و درخواستیں اور ان سے متعلقہ اداروں کے نام تک انگریزی میں لکھے اور بیان کئے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران باہر ممالک جا کر بھی ہماری نمائندگی کرنے کے بجائے انگریزوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، جہاں ہر مستقل ملت کا حاکم اپنی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتا یے۔ پروردگار سے دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں عقل و شعور عطا فرمائے۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 867166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش