1
Friday 12 Jun 2020 18:09

موجودہ عالمی نظام نابودی کی جانب گامزن

موجودہ عالمی نظام نابودی کی جانب گامزن
تحریر: فرانسس فوکویاما (francis fukuyama)

عظیم بحران عظیم اور عام طور پر غیر متوقع نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے گذشتہ صدی میں عظیم اقتصادی بحران، گوشہ گیری، قومیت پرستی، فاشزم اور دوسری عالمی جنگ کا باعث بنا تھا۔ اسی طرح یہ بحران نئے معاہدے، امریکہ کا نئی سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آنے اور آخرکار استعمار پر منتج ہوا تھا۔ 2008ء میں رونما ہونے والے بحران کا نتیجہ بھی انسان مخالف پاپولزم اور دنیا بھر میں حکمرانوں کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ ماہرین تاریخ کرونا وائرس کے پھیلاو کے عظیم اور مشابہہ نتائج پر مبنی تصورات پیش کر چکے ہیں اور اس وقت ہمارا سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیسے وقت سے پہلے ان چیلنجز کو پہچان سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ممالک نے دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کرونا وائرس سے درپیش بحران کا مقابلہ کیا ہے۔ کئی وجوہات کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال کافی عرصے تک باقی رہے گی۔ کرونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پھیلنے والی کووڈ 19 وبا سے مقابلے میں بعض موثر عوامل حکومت کی صلاحیت، عوام کا اعتماد اور لیڈرشپ پر مشتمل ہیں۔

ایسے ممالک جہاں یہ تینوں عوامل موجود ہیں یعنی حکومت دیانت داری سے کام کر رہی ہے، عوام حکومت پر اعتماد کرتے ہیں اور معاشرے میں اثرورسوخ کے حامل لیڈران بھی موجود ہیں، اس وبا سے مقابلہ کرنے میں بہت کامیاب رہے ہیں اور انہیں کم از کم نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف ایسے ممالک کی معیشت اور عوام کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے جہاں حکومت مناسب صلاحیت کی مالک نہیں، معاشرے میں انتشار پایا جاتا ہے اور لیڈران کا عوام میں اثرورسوخ بھی کم ہے۔ عالمی معیشت اتنی جلدی کرونا وائرس سے پہلے والی صورتحال کی جانب واپس نہیں پلٹے گی۔ اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو طویل عرصے تک اقتصادی بحران کا نتیجہ اقتصادی مشکلات میں اضافہ، ہائپر مارکیٹس اور بڑے بڑے مالز کی نابودی اور سیروسیاحت کے شعبے کو شدید دھچکے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ گذشتہ چند عشروں سے امریکی معیشت میں منڈی کی سطح بڑھتی رہی ہے اور کووڈ 19 وبا کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کرونا وائرس سے درپیش بحران سے صرف بڑی کمپنیاں ہی بچ پائیں گی۔ اسی طرح ہائی ٹیک کمپنیوں کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ ڈیجیٹل سرگرمیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔

کرونا وائرس سے پیدا شدہ بحران کے نتائج میں سب سے زیادہ اہم سیاسی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ طویل عرصے تک وبا رہنے کے باعث بڑے پیمانے پر افراد بیروزگاری کا شکار ہوں گے۔ دوسری طرف لمبے عرصے تک اقتصادی جمود قرضوں میں شدید اضافے کا باعث بنے گا جو شدت پسندی اور سیاسی ردعمل کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر طاقت کا رجحان بدستور مشرقی دنیا کی جانب برقرار رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں مشرقی ممالک کی جانب سے کرونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کو بہتر انداز میں کنٹرول کرنا ہے۔ اگرچہ یہ بحران چین سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ملک دوسروں کی نسبت زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ چین ایک بار پھر صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اپنی معیشت کو ترقی اور استحکام کی جانب لے جا چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ نے اس بحران کے مقابلے میں انتہائی نامناسب ردعمل ظاہر کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت امریکی معاشرہ شدید انتشار کا شکار ہے اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ قوم کو متحد کرنے کی بجائے ان میں مزید تفرقہ اور اختلاف ڈال رہے ہیں۔

اگر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو جمہوریت اور عالمی لبرل نظام کو دوبارہ زندہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ البتہ آئندہ صدارتی انتخابات میں جو بھی کامیاب ہو امریکی معاشرے میں پیدا ہونے والا موجودہ انتشار اور تفرقہ شدت سے باقی رہے گا۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کرونا وائرس کی موجودگی میں الیکشن کا انعقاد بھی بہت مشکل ہے جبکہ الیکشن میں ہارنے والی قوتوں میں انارکی اور ہنگامہ آرائی کے محرکات بھی زیادہ پائے جائیں گے۔ اگر صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار کامیاب بھی ہو جائے تب بھی اسے ایک ایسا ملک وراثت میں ملے گا جس کا ستیاناس ہو چکا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی تنظیمیں کمزور ہوں گی اور انہیں دوبارہ بحال کرنے میں سالوں کا عرصہ درکار ہو گا۔ البتہ اگر انہیں بحال کرنا ممکن ہو۔ جب کرونا وائرس سے درپیش بحران کی شدت میں کمی آئے گی تو دنیا ایک طویل عرصے تک اقتصادی جمود کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے بعد دنیا بھر شدید تناو اور تشدد آمیز اقدامات کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ جمہوریت، سرمایہ داری اور امریکہ اس سے پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ ان میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ لیکن انہیں اس کام کیلئے جرات مندانہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 868173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش