0
Saturday 13 Jun 2020 10:45

تحریک انصاف کی حکومت اور سسکتی عوام

تحریک انصاف کی حکومت اور سسکتی عوام
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عمران خان صاحب نے ورلڈ کپ سے شہرت پائی، اپنی اس شہرت کو شوکت خانم  جیسے بڑے فلاحی منصوبے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت کی حکومت اور پوری پاکستانی قوم نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا اور عمران خان صاحب وہ ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا، جہاں سے عمران خان صاحب نے سیاستدان بننے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ جس طرح میں نے ورلڈ کپ جیتا ہے، جس طرح میں نے ہسپتال کھڑا کر دیا ہے، اسی طرح جب ملکی خزانے میرے پاس ہوں گے تو میں ملک کو بھی چار چاند لگا دوں گا۔ اصل میں خان صاحب ملک کو گیارہ کھلاڑوں کی ٹیم یا شوکت خانم جیسا کوئی فلاحی منصوبہ سمجھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کو سنہری خواب دکھانے شروع کیے، ہر وہ نعرہ لگانا شروع کیا، جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ نعرہ لگاتے ہوئے نہ تو اس کے اثرات کو دیکھا گیا کہ حکومت مل گئی تو کیا ہوگا؟ خیر جیسے بھی ہوا ان کو حکومت مل گئی، کچھ لوگوں کو امید تھی کہ یہ اچھا پرفام کریں گے، اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے، مغربی دنیا تک میں یہ مقبول ہیں، تقریریں بھی اچھی کر لیتے ہیں، اپنے ملک کا مقدمہ اچھا لڑیں گے۔

مگر ہوا کیا؟ اتنی بری کاکردگی کی امید تو ان کے مخالفین کو بھی نہ تھی، جتنی بری کارکردگی کا مظاہرہ عمران خان صاحب نے فرمایا۔ ہر اس بات سے یوٹرن لیا، جو ان کا انتخابی نعرہ تھا، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے لے کر لوٹوں کی بے تحاشہ بھرتی تک، سب روایتی ہتھکنڈے ایسے استعمال ہوئے کہ پرانے سیاستدان حیران تھے کہ ہم بھی اس حد تک نہیں جاتے تھے، جس تک خان صاحب پہنچ گئے ہیں۔ جب خان صاحب سے کہا گیا کہ جو کچھ آپ کہتے رہے، اب آپ ہر اس چیز سے یو ٹرن لے رہے ہیں؟ تو انہوں نے بڑے فخر سے فرمایا کہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں، انہی کے نتیجے میں، میں حکومت تک پہنچ گیا ہوں۔ یورپ کی وہ بہت مثالیں دیا کرتے تھے تو جناب انتخابی نعروں کو جان بوجھ کر صرف ووٹ کے لیے استعمال کرنا جمہور کے ساتھ فراڈ ہے، دھوکہ ہے۔ انہوں نے آپ کو اس وجہ سے ووٹ دیا کہ آپ اپنی باتوں پر عمل کریں گے، نہ یہ کہ آپ ہر بات سے یوٹرن لے لیں گے۔

کرونا وائرس کا اتنا بڑھ جانا کہ ہر شخص خوف کا شکار ہو جائے، ایک بڑی ناکامی ہے۔ عمران خان صاحب کی کرونا پالیسی کیا ہے؟ آج تک کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کیا لاک ڈاون ہے؟ نہیں ہے، کیا نہیں ہے؟ جی گھروں میں رہیں؟ کرونا بڑا مرض ہی نہیں ہے، کچھ دنوں بعد کرونا سے بڑا خطرہ ہے، اس سے بچیں۔ سب لوگ ماسک لگائیں، خود میٹنگ میں بغیر ماسک کے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے ملا نصیر الدین کا لطیفہ لکھا ہے، اس پوری صورتحال کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ ہمسائے نے ملا نصیرالدین پر مقدمہ دائر کر دیا کہ موصوف نے عاریتاً صراحی لی تھی، مگر جب واپس کی تو شکستہ حالت میں تھی۔ قاضی نے ملا نصیر الدین کو طلب کیا اور پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ فرمانے لگے: "اول تو جب میں نے صراحی واپس کی تو وہ بالکل درست حالت میں تھی، دوم یہ کہ جب مجھے ملی، تبھی شکستہ تھی اور سوم یہ کہ میں نے کبھی ان سے صراحی لی ہی نہیں۔"

قوم تعاون کرے، گھروں میں رہے، البتہ تفریحی، سیاحتی مقامات اور بازار بہت اداس تھے، ان کو "کھولا" جا رہا ہے۔ گھر پر رہنا ہے تو کھولے کیوں اور کھولے ہیں تو گھر پر کیوں کر رہنا چاہیئے۔؟ دیکھو اول تو حالات بالکل ٹھیک ہیں، دوم جب حکومت میں آئے تو حالات بہت ہی خراب تھے، سوم وہ تو کبھی حکومت میں آئے ہی نہیں۔ موجودہ بجٹ کو ہی لے لیں، سرکاری ملازمین بڑے ذوق و شوق سے  انتظار کر رہے تھے کہ اس بجٹ میں پچھلے سال ہوئی بے تحاشہ مہنگائی کی مناسبت سے اضافہ کیا جائے گا۔ کچھ لوگ کرونا اور معاشی بحران کی وجہ سے دس فیصد تک ہی بڑھنے کی  پیشگوئی کر رہے تھے، مگر ہوا کیا؟ تمام ملازمین کو پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ سب ملازمین ایک دوسرسے سے حیرت سے پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟ کیونکہ کرونا کی وجہ سے مظاہرہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

نااہل لوگوں کو زمام اقتدار دے دینا ملک پر جنگ مسلط کرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اچھا خاصا چلنا ملک تباہ کر دیا گیا۔ وہ ملک جس کی معاشی ترقی چھ فیصد کو چھو رہی تھی، وہ منفی ایک دو فیصد پر چلا گیا۔ ہسپتال بن رہے تھے، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں، موٹرویز بن رہے تھے، ہر بڑے شہر میں چند چند ماہ میں بڑی بڑی میٹرو کھڑی کی جا رہی تھیں۔ سب کچھ تبدیلی کھا گئی  اور اب دو قت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اچھی قیادت خطرات کا بروقت ادراک کرتی ہے اور ان سے ملک و قوم کو نکالنے کا اہتمام کرتی ہے۔ یہاں تو چینی سے لے کر پٹرول تک ہر چیز وافر مقدار میں ہونے کے باوجود اس کا بحران پیدا کر دیا گیا۔ شائد یہ پاکستانی تاریخ کی پہلی حکومت ہوگی، جس میں ہر اس چیز کا بحران پیدا ہوا، جس کی قلت نہیں تھی اور اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ خان صاحب کو خود یونین کونسل چلانے کا بھی تجربہ نہیں تھا، ان کے حوالے پورا ملک کر دیا گیا، وہ ملک کو گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم کی طرح چلا رہے ہیں، جن کی تنخواہیں سرکار کے خزانہ سے آتی ہیں، جیت جائیں تو واہ واہ ہار جائیں تو بھی تنخواہ تو پھر بھی پوری ہی ملتی  ہے۔ خاں صاحب کی تنخواہ پوری ہے، عوام جہاں مرضی جائے، اس سے حکومت کو کیا۔؟
خبر کا کوڈ : 868293
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش