0
Sunday 14 Jun 2020 10:56

بغداد واشنگٹن معاہدہ

بغداد واشنگٹن معاہدہ
اداریہ
یوں تو عالمی سطح پر امریکہ میں جاری حکومت مخالف تحریک کی خبریں تمام اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہو رہی ہیں، لیکن اس دوران خطے میں کئی ایسے اقدامات انجام پا رہے ہیں، جن کے دور رس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پہلا چین سرحدی تنازعہ، پاک افغان تعلقات کی نوعیت اور پاکستان کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے چیف کا ہنگامی دورہ افغانستان، ایران کی طرف سے امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود وینزویلا تیل کی سپلائی نیز کرونا کی تباہی۔ ان مسائل کے علاوہ عراق امریکہ معاہدے کے تناظر میں نئے عراقی وزیراعظم مصطفیٰ کاظمی کی ٹیم اور امریکی عہدیداروں کے درمیان مذاکرات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے مطابق اگر امریکہ عراق سے اپنے فوجی نکال لیتا ہے تو یہ بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہوگی۔ امریکہ اس شکست کے لیے ہرگز تیار نہیں۔

کیونکہ عراق میں امریکہ کا غیر معمولی فوجی اڈہ صرف دکھاوے کے لیے نہیں تعمیر کیا گیا تھا، بلکہ امریکہ نے دنیا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ عراق میں اس لیے بنایا تھا، تاکہ اس فوجی اڈے کے ذریعے پورے خطے کو کنٹرول کرسکے اور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایران اور مقاومت کے بلاک کے خطرے کو کم سے کم کرے۔ امریکہ اور بغداد کے درمیان 2008ء میں یہ معاہدہ نوری المالکی کے دور میں انجام پایا تھا۔ اس معاہدے میں امریکہ اور عراق کے درمیان مختلف شعبوں من جملہ اقتصادی، تعلیمی، سیاسی، سلامتی اور فوجی شعبے میں باہمی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ بغداد واشنگٹن مذاکرات میں شریک ایک مذاکرات کار کے بقول امریکی وفد نے اس نشست میں بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور امریکیوں کی پوری کوشش تھی کہ یہ مذاکرات ناکام نہ ہوں، البتہ ان مذاکرات میں امریکی نمائندوں کی پوری کوشش تھی کہ وہ عراق کی تعمیر نو کے تمام بڑے منصوبوں کو اپنے نام کر لیں۔

عراقی مذاکرات کار کے بقول امریکی عراق کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ یہاں تک کہ کرونا کے مقابلے کے لیے امریکہ نے فوری طور پر سات سو ملین ڈالر کی پیشکش بھی کر دی۔ تعلیمی شعبہ میں بھی عراقی طلبہ کے لیے امریکہ میں تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔ امریکی نمائندگان کی پوری کوشش تھی کہ ان مذاکرات میں طرفین کی توجہ عراقی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کی طرف نہ جائے، جس میں عراق سے امریکی افواج کے انخلا کی بات کی گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ عراقی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کو بے اثر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی، امریکہ کا ماضی میں اور اب بھی یہی طریقہ ہے کہ اپنے مذموم ہدف کی تکمیل کے لیے لالچ اور دھمکی یعنی اسٹک اور کیرٹ کی پالیسی کا استعمال کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 868573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش